1...قسط
دن کے اجالے کو رات کی سیائی نے ڈھانپ دیا تھا ہر طرف ہوکا عالم ہوگیا۔۔وہ کوہ مری کی سرد رات تھی ہر طرف چیڑ کے گھنے پیڑوں نے رات کی سیائی میں مزید اضافہ کر دیا تھا ان سنوبر کے پیڑوں سے ٹکراتی ہوئی ٹھنڈی ہوائوں نے موسیقی کا روپ دھارا تھا چاروں طرف سنسناہٹ پھیلی ہوئی تھی۔۔ پر پھاڑوں کے سامنے بنی یونیورسٹی سے اب بھی آوازیں آرہی تھی۔۔
ان کا کمرا چھوٹا سا تھا جہاں چھوٹے دو بیڈ پڑھے تھے ایک پر ردا اور سائر سو جایا کرتی تھی۔۔اور دوسرے پے زارا اور ماہ نور۔۔ایک اسٹیڈی ٹیبل تھی۔۔جہاں پر وہ اکثر بیٹھہ کر پڑھہ لیا کرتی تھی۔۔باقی ساتھہ ہی بیڈ کے ساتھہ لگے چھوٹے کبٹ اور ایک الماری تھی جو دیوار کے ساتھہ لگی ہوئی تھی۔۔الماری خاصی بڑی تھی تو اس میں ان کے کپڑے آرام سے آجاتے تھے تقریبن پوری یونیورسٹی میں سب سو چکے تھے اور ہر طرف اندیھرا تھا پر ان کے کمرے میں ہلکی لیمپ کی روشنی تھی۔۔ماہ نور اپنے فون میں مصروف تھی وہیں زارا اس کے ساتھہ لیٹی بیڈ سے ٹیک لگائے بیٹھی تھی وہ اپنے بالوں میں ہاتھہ پھیرتی کچھہ سوچ رہی تھی۔۔وہیں سامنے جہاں اسٹیڈی کے لیے چھوٹی ٹیبل اور چیئر رکھی گئی تھی۔۔ردا چیئر پے بیٹھی لیپ ٹوپ پے کچھہ دیکھہ رہی تھی۔۔
"یار ویسے میں سوچ رہی ہوں کہ فوٹوگرافی ٹرپ پے جاؤں"۔۔ "تم کیا کہتی ہو؟"۔۔وہ سوچتے ہوئے بولی۔۔ اور ماہ نور کی طرف دیکھے اس کے جواب کی منتضر رہی۔۔ماہ نور نے اسکی بات سن کر اپنی نظریں اٹھائے زارا کو دیکھا۔۔وہ تھوڑی دیر اسے دیکھتی رہی پھر ہاتھہ آگے بڑھائے بولی۔۔
واوو! نائیس اوپشن ہے بیسٹ اوف لک سر آپ کو بلکل اجازت نہیں دیں گے"۔۔وہ آنکھیں چپکاتی ہلکا سا مسکرا کے اسے دیکھہ رہی تھی۔۔زارا پہلے اس سے ہاتھہ ملا کر ہنس دی پھر اس کی اگلی بات پر اس کی ہنسی غایب ہوگئی۔۔
کیوں سر مجھے کیوں پرمیشن نہیں دیں گے؟اور میں کونسا اکیلی جاؤں گی تم اور ردا بھی جلوگی"۔۔وہ اطمنان سے بولے اپنے بالوں میں ہاتھہ پھیرنے لگی۔۔
"مجھے کسی کنوے نے نہیں کاٹا جو میں چلوں گی اور ویسے بھی مجھے نہیں پسند ایسے فضول چیزوں کے لیے باہر جانا"۔۔وہ سر جھٹکتے دوبارا اپنے فون میں دیکھنے لگی۔۔
"تم میری ہوبی کو فضول کہہ رہی ہو؟"۔۔وہ دانت پیستے بولی وہ غصا کرنے کی اکٹنگ کر رہی تھی۔۔
"ارے نہیں یار میرا یہ مطلب نہیں تھا سوری"۔۔۔۔ وہ اپنا فون سائیڈ پے رکھتے اسکے آگے بیٹھہ گئی۔۔"تمہیں پتا ہے نہ یار اگلی بار بھی ہم جب سر سے اجازت لے کر باہر گئے تھے۔۔تو کس طرح بھٹک گئے تھے اور دو تین آدمی بھی ہمارے پیچھے لگے تھے۔۔شکر ہے کہ اس وقت فرقان کہیں سے آگیا ورنا"۔۔وہ گہری سانس لے کر کہہ رہی تھی۔۔چہرے پر پریشانی ابھر آئی تھی۔۔
"ہاں یہ بھی ہے صحیح کہہ رہی ہو تم پر اب میرا گول گپے کھانے کا دل کر رہا ہے کیا کروں؟"۔۔ زارا نے معصومانہ چہرا بنائے پوچھا۔۔ تو ماہ نور ہنس پڑی۔۔
"چلو چلتے ہیں پھر"اس نے چہک کر کہا اور بیڈ سے اٹھہ کر الماری کی طرف بڑی۔۔ اپنا لمبا مخمل کا کوٹ نکالے اس نے پہنا۔۔مری میں ڈھنڈ زیادہ ہوتی تھی۔۔بس یہ ماہ نور کا معمولی کوٹ کیا مری کی ڈھنڈ کو روک سکتا تھا۔۔ زارا ابھی تک وہیں بیٹھی اسے دیکھہ رہی تھی۔۔
"کہاں جانے کی تیاری ہو رہی ہے"؟ ردا نے اچانک نظریں اٹھائے اسے دیکھا۔۔ جو اب آئنے میں کھڑی اپنے بال سنوار رہی تھی۔۔
"مری میں رہ کر ہم مری کے مشہور گول گپے نا کھائیں۔۔ اور رات میں سڑکوں پے نا گومیں تو کیا ہی فائدا ہمارا مری میں رہنے کا"۔۔ ماہ نور نے کندھے اچکائے کہا۔۔ اس کی اس بات پر ردا نے سر ہلایا اور دونوں اٹھہ کھڑی ہوئی۔۔
"پر چلیں گے کیسے رات کے دس بج رہے ہیں۔۔ گیٹ تو کب کا بند ہو چکا ہے اور جتنی سر کو ہماری شکایتیں ملی ہیں وہ ہمیں بلکل نہیں جانے دیں گے"۔۔ زارا نے بیڈ سے اپنی شال اٹھائے خود کو ڈھانپا۔۔مری میں سب سویرے ہی سو جاتے تھے اور اگر جاگ بھی رہیں وہ تو اپنے کمرے تک ہی محدود رہتے تھے ان کا گیٹ تکریبن نوں بجے تک بند ہو جاتا تھا۔۔ بس کچھہ ہی ماہ نور اور اس کی فرینڈز جیسی مخلوقیں جو جِنوں کی طرح آدھی آدھی رات تک جاگتی رہتی تھی۔۔
"دیواریں کب کام آئیں گی"۔۔۔ اس نے شرارتی انداز میں کہا۔۔اور اپنا اسکاف گلے میں سیٹ کرنے لگی۔۔
"کیا پاگل ہو دیواریں؟ اللہ ٹانگیں تڑوانی ہے کیا؟"۔۔ زارا نے خوف زدا ہو کر کہا۔۔ جیسے بس اب وہ جانے کا ارادہ نہیں رکھتی۔۔
"کوئی بات نہیں ٹوٹ گئی تو دوسری ڈلوا دیں گے۔۔ وقت نکل گیا تو واپس نہیں آئے گا"۔۔ ردا نے آنکھیں مار کر شرارتی انداز میں کہا۔۔ اور کوٹ پہنے اس نے مفلر اپنے چہرے پے باندھا۔۔
"نہیں میں نہیں چل رہی تم لوگ جاؤ"۔۔ زارا نے صاف گوہی کی اور بیڈ کی جانب بڑی لیٹنے کے غرض سے کے ماہ نور نے اسے بازو سے کھینچا۔۔ اور گھسیٹنے والے انداز میں کمرے سے باہر نکالا۔۔ ردا نے کمرے کی لائٹس اوف کی اور رات کے اندھیرے میں ہاسٹل سے وہ تینوں لڑکیاں دبے پاؤں نکلی تھی۔۔
"یہ فرقان اور اسد کہاں رہ گئے"۔۔ ماہ نور منہ میں بڑبڑائی۔۔
"تم نے کال کی تھی ان کو"ردا نے احتجاجن پوچھا۔۔
"ہاں اور نہیں تو کیا!اکیلے مرنے تھوڑی جانا تھا میں نے"۔۔
"اللہ تم لوگ اپنے ساتھہ ساتھہ مجھے پھساؤ گے وہ دیکھو سپائی جاگ رہا ہے"زارا نے روہانسی والے انداز میں دور بیٹھے سپائی کی طرف اشارہ کیا۔۔ جس کی پیٹھہ ان کی جانب تھی۔۔
استغفراللہ!"تم نے ہی کہا تھا نہ دل کر رہا ہے گول گپے کھانے کا"ماہ نور نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔۔
ایک نمبر کی ڈرپوک لڑکی ہے یہ!برابر میں کھڑی ردا نے منہ بگاڑ کر کہا۔۔
"وہ رہے فرقان اور اسد"۔۔ زارا نے گیٹ کی باہر والی سائیڈ اشارہ کیا۔۔ جہاں وہ دونوں چلتے ہوئے ایک دوسرے سے بات کر رہے تھے۔۔ یہ تینوں ٹیرس پے کھڑی تھی۔۔ جہاں سے باہر کا سارا ویو نظر آ رہا تھا۔۔
"اب یہاں سے نکلنا کیسے ہے؟ "زارا نے پوچھا۔۔ تو ردا کا دل چاہا وہ اپنا سر پیٹے۔۔ ماہ نور اس کی بات پر اور تپ گئی۔۔
"پوچھہ ایسے رہی ہو جیسے یہ کارنامہ ہم پہلی بار سر انجام دے رہے ہیں نا"۔۔
اس نے غصے سے آنکھیں بڑی کی۔۔ تو وہ منہ بنا کر پیچھے مڑ گئی۔۔ وہ دونوں بھی اس کے پیچھے چل دی۔۔ دبے پاؤں تینوں لڑکیاں اپنے جوتے ہاتھوں میں اٹھائے اب ہاسٹل کے دروازا کھول کر نکلی تھی۔۔ دروازے سے آگے تھوڑا بڑا میدان تھا۔۔ اور پھر بڑا سا گیٹ جس کے باہر سپاہی بیٹھا تھا۔۔
وہ تینوں چلتی ہوئی پچھلی دیور کے آگے کھڑی تھی۔۔ نظریں اٹھائے تینوں نے دیوار کو دیکھا۔۔ اور پھر ایک نظر ایک دوسرے کو دیوار کافی لمبی معلوم ہو رہی تھی۔۔
"اب کیسے جائیں گے؟" زارا نے بیچارگی سے پوچھا۔۔ تو ماہ نور نے اپنا سر پیٹا۔۔
"مجھہ پر لعنت جو میں نے اس کی بات پر فورن عمل کیا"۔۔ وہ سر پکڑے نیچے بیٹھہ گئی۔۔ ایک تو پہلے ہی وہ پریشان تھے کہ کس طرح باہر نکلیں اوپر سے اس کے سوال۔۔
"میں نے کیا کیا؟"زارا نے کندھے اچکائے ۔۔ جیسے کچھہ نہ جانتی ہو۔۔ "نہیں تم نے کچھہ نہیں کیا میرا ہی قصور ہے سارا"۔۔ ماہ نور نے لفظوں پے زور ڈالا۔۔
فرقان؟ اسد؟ ردا نے دیوار پے ہاتھہ مارے تھوڑا آہستہ آواز میں کہا۔۔
"گدھوں بیھڑے ہو کیا؟"اس نے اونچی آواز میں کہا۔۔
"کیا ہے"۔۔ اسد نے چیڑنے والے انداز میں جواب دیا۔۔بال بکرے ہوئے تھے۔۔ اسے دیکھہ کر انداز ہو رہا تھا۔۔ کہ اسے نیند سے جگایا گیا ہے۔۔
"کان خراب ہو گئے ہیں تم دونوں کے"۔۔
"کان خراب نہیں ہوئے پر یقینن اب ہو جائیں گے تم جیسی چڑیلیں پیچھے لگی ہیں"۔۔ اس نے جیسے بیزاری سے کہا تو ماہ نور چڑ کر بولی۔۔
زیادہ بک بک مت کرو!"طریقہ بتاؤ یہ دیوار اتنی لمبی ہے چھلانگ لگاتے پکا ہماری ہڈیاں ٹوٹ جائیں گی"۔۔اس نے ایک بار پھر دیوار کو دیکھتے ہوئے سرگوشی نما آواز میں کہا۔۔
تو یہ پہلے سوچنا تھا نہ!"اور یار کس قسم کی لڑکیاں ہو آدھی رات کو گول گپے کھانے کی پڑی ہے"۔۔ وہ کہے بغیر نا رہ سکا۔۔
بعد میں لڑ لینا۔ جب وہ سامنے آ جائیں۔۔ پہلے یہ سوچو کے وہ آئیں گی کیسے۔۔"ماہ نور کیا آس پاس کوئی اسٹول نہیں پڑا"۔۔ فرقان نے بیچ میں مداخلت کرتے اسد کو حدایت دی۔۔ اور دیوار کے قریب ہو کر ماہ نور سے آہستہ آواز میں کہا۔۔
"نہیں یہاں کچھہ بھی نہیں ہے!ایک ہی اسٹول تھا۔۔ وہ بھی اس ٹکلے نے ہٹا دیا"۔۔ اسٹول پرنسپل نے ہی ہٹوایا تھا۔۔ انہیں خبر ملی تھی۔۔ کہ ان کی یونیورسٹی میں ایسی مخلوقیں رہتی ہیں۔۔ جو اکثر رات کے وقت دیواروں سے چھلانگ مار کر گومنے جاتی ہیں۔۔ اور لڑکے ہو تو بھی ٹھیک۔۔ لڑکیوں کے ایسے کارنامیں سن کر پرنسپل ٹھک گیا تھا۔۔
ہاں پرنسپل اتنا پاگل نہیں نا!"کہ تم لوگوں کے کارنامیں جانتے ہوئے بھی تم لوگوں کے لیے آسانیاں کرے"۔۔ اسد نے ایک اور آگ کے چھولے اپنے منہ سے ادا کیے۔۔ اسے غصہ تھا۔۔ اس کی نیند خراب ہوئی تھی۔۔
"ایک بار تم سامنے آجاؤ تمھارا منہ نوچ لوں گی میں"۔۔ ماہ نور نے دانت پیس کر کہا۔۔ تو وہ ہنس پڑا۔۔
ایک کام کرو!"اندر جا کر چیئر لے کر آؤ اس پر چڑو پھر دیور چھوٹی لگے گی"۔۔ اسد نے دیوار پے زور دے کر کہا۔۔
"سوال ہی پیدا نہیں ہوتا میں اندر نہیں جاؤں گی"۔۔
"میں بھی نہیں"۔۔
"میں تو بلکل نہ جاؤں مجھے الریڈی ڈر لگ رہا ہے"۔۔ تینوں نے صاف انکار کیا۔۔
"پھر سڑو یہیں ہم جا رہے ہیں چل بھائی"۔۔ اسد آگے بڑا اور فرقان کو کھینچا۔۔
اوووئےےےے!"تم کیا گوڑے پے سوار ہو کر آئے ہو"۔۔ماہ نور نے تھوڑا اونچا بولا۔۔
"ہاں تو اور کیا ایک تو اس نے مجھے زبردستی اٹھایا ہے۔۔ اوپر سے آدھا گھنٹا ہونے کو ہے ہم یہاں سڑ رہے ہیں۔۔ اور تم لوگوں کے نخرے ہی ختم نہیں ہو رہے"۔۔
اب کی بار اسد نے سنجیدہ ہو کر کہا۔۔ اب وہ واقعی چڑ رہا تھا۔۔ اوکے میں لے کر آتے ہوں۔۔ ماہ نور نے یہ کہہ کر بات ختم کی اور چاروں طرف نظریں دوڑائی۔۔ ہر جگاھہ خاموشی تھی۔۔ اندھیرا پھیلا ہوا تھا۔۔ بس ہلکے بلب کی روشنی تھی۔۔ جو باہر لگا ہوا تھا۔۔ ماہ نور آہستہ قدم بڑھاتی ادھر ادھر دیکھتی ہاسٹل کے اندر داخل ہوئی۔۔ دبے پاؤں چیئر اٹھا کر وہ واپس نکلی۔۔ دیوار کے آگے چیئر رکھے۔۔ پہلے اس نے زارا کو چڑنے کو کہا۔۔ جس کا پہلے ہی خوف سے حال برا ہو رہا تھا۔۔ پھر باری باری تینوں نے چڑ کر چھلانگ ماری۔۔ اور اب یہ پانچوں سڑک کے کنارے پے چلتے ہوئے جا رہے تھے۔۔
"موسم کافی اچھا ہو رہا ہے"۔۔ فرقان نے محسوس کیا۔۔ کوٹ کی جیبوں میں ہاتھہ ڈالے وہ سیدھا چل رہا تھا۔۔
"ہاں ہم جو ساتھہ ہیں"۔۔ ردا نے شوخیا انداز میں کہا۔۔ تو فرقان نے نظر اٹھائے اسے دیکھا۔۔ اور پھر مسکرا کر سر جھٹکا۔۔
"میں دو پلیٹ کھاؤں گی گول گپے کی"۔۔ زارا نے چہک کر کہا۔۔ تو ماہ نور نے اسے دیکھا۔۔
"بس اتنی تم تینوں کو تو سارے گول گپے کھانے چاہیے"۔۔ اسد نے کہا۔۔
"کیوں اپنی طرح سمجھا ہے کیا۔۔ اتنا پیٹ نہیں ہے ہمارا"۔۔ ماہ نور نے ایک نظر اسے دیکھہ کر۔۔ آنکھیں گھمائی۔۔ اور اپنے چہرے پے آتے بالوں کو کانوں کے پیچھے کیا۔۔
"میں؟"اس نے اپنی طرف انگلی اٹھائے پوچھا۔۔ مجھے کم از کم تم لوگوں کی طرح رات کو کھانے کی طلب نہیں ہوتی"۔۔
"ہاں ہوگی بھی کیسے اتنا جو کھاتے ہو"۔۔ ردا نے مداخلت کرتے کہا۔۔ تو اس نے چونک کر دیکھا فرقان نے با مشکل اپنی ہنسی روکی۔۔
"میں کھاتا ہو؟ دیکھا ہے تم نے کتنا کھاتا ہوں میں؟"
ہاں اور نہیں تو کیا!"پوری کی پوری ایک پلیٹ کھا جاتے ہو چاولوں کی"۔۔ردا کی اس بات پر وہ تینوں ہنس پڑے سوائے اسد کے۔۔
"ایک پلیٹ کو ایسے ڈفائین کر رہی ہو جیسے ایک پلیٹ نہیں دس پلیٹیں ہوں"۔۔ وہ ہنسے بغیر نہ رہ سکا۔۔
اب پانچوں دکان کے سامنے کھڑے تھے۔۔ ردا کے چہرے پے مفلر بندھا ہوا تھا۔۔ اور لمبا ڈارک بلو کلر کا کوٹ پہنا تھا۔۔ ماہ نور نے کوٹ پہنا ہوا تھا۔۔ اور اس کے اوپر کندھوں پر شال اوڑھی تھی۔۔ جب کے زارا نے خود کو صرف شال سے ڈھانپا تھا۔۔فرقان کو لمبا کوٹ پہنا ہوا تھا۔۔ جب کے اسد نے کچھہ نہیں پہنا تھا۔۔ سونے سے پہلے ہی اس نے سوئٹر پہنا تھا۔وہ بھی ایسا کہ اندازا لگانا مشکل تھا کہ شرٹ ہے یا سوئٹر اس کی شکل ایسی تھی۔۔ گول گپے کھا کر۔۔ایک دوسرے سے گپے لڑا کر پانچھوں ہاسٹل کی اور بڑ گئے تھے۔۔
☆☆☆☆☆☆
وہ پاشا اور جویریہ ایک ساتھہ بیٹھے ڈنر کر رہے تھے۔۔۔ زینب سیڑیوں سے اتری اور کچن میں پانی پینے کے لیے گئی۔۔وہ کالیج سے آکر اپنے کمرے میں ہی سو گئی تھی۔۔آج وہ کچھہ تھکی تھکی ہوئی تھی۔۔ اور اسکی طبیعت بھی ٹھیک نہیں تھی۔۔ اس لیے وہ دوپہر کے ٹائیم کسی سے مل بھی نہیں پائی تھی۔۔ بس سلام کیے سیدھا کمرے میں چلی گئی تھی۔۔ وہ پانی پی رہی تھی جب اسکے ابا نے اسے آواز دی۔۔
"زینب؟۔۔۔
"جی ابا" وہ پانی کا آخری گونٹ لے کر کچن سے باہر نکلی اپنے ابا کے سامنے کھڑی ہوگئی۔۔
"بیٹھیں ادھر کانا کھائیں ہمارے ساتھہ"۔۔ انہوں نے اسے چیئر پے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔۔
"آپ کالیج سے آج کل دیر سے آرہی ہیں۔۔؟"پاشا زینب کی طرف دیکھہ کر بولے۔۔
"ابا آج کل ہماری امپورٹنٹ کلاسس چل رہی ہیں۔۔ تو اس لیے لیٹ ہو جاتا"۔۔وہ کھانے کا نوالا منہ میں لیتی پرسکون انداز میں بولی۔۔
"پھر بھی کوشش کیا کریں۔۔کہ جلدی آجائیں آج کل حالات صحیح نہیں ہیں"۔۔پاشا نے نصیحت کی اور دوبارہ کھانا کھانے میں مصروف ہوگئے۔۔۔
"جی ابا"۔۔زینب نے حامی بھرتے سر ہلایا۔۔
"کیسے لگے آپکو زاھد کے گھر والے"۔۔پاشا نے جویریہ سے مخاتب ہوکر پوچھا۔۔
"اچھے تھے۔۔ہمیں تو بہت عزت دی۔۔کہہ رہے تھے۔۔ کہ شادی کی تاریخ دے دیں۔۔میں نے کہا کہ ایسے میں تو نہیں دے سکتی گھر میں ڈیسکس کریں پھر جو بات بنی"۔۔۔۔جویریہ نے مکمل تفصیل دی۔۔
"چلیں یہ تو اچھی بات ہے۔۔میرے خیال میں اب ہمیں دیر نہیں کرنی چائیے تاریخ دے دیتے ہیں"۔۔وہ سوچتے ہوے بولے۔۔
"ہاں بلکل میرے خیال میں اگلے مہینے کی پندرہ تاریخ ٹھیک رہے گی۔۔آپ کا کیا خیال ہے"۔۔جویریہ تشویش بھرے انداز میں بولی۔۔
"ہاں ٹھیک ہے ماہ نور بھی اتوار کے دن آئے گی۔۔میں کل زاھد سے مل کر اسے بتا دوں گا۔۔مناسب ہوگا آپ بھی فروا کو کال کر کے بتا دیں۔۔
"جی میں انہیں بتا دوں گی"۔۔۔جویریہ نے سر ہلایا۔۔
"یعنی ابا آپی اسی ہفتے آ رہی ہیں"۔۔زینب نے پرجوش انداز میں پوچھا۔۔
"ہاں پرسوں آئیں گی وہ"۔۔۔
"ابا کتنے دن کے لیے آئیں گی آپی؟"۔۔
"آنے تو دو اس کو"۔۔جویریہ نے ہنستے ہوے جیسے ٹوکا۔۔
"امی وہ تو میں اس لیے پوچھہ رہی ہوں۔۔ کیونکہ آپی آتی ہیں تین چار ماہ بعد اور تین چار دن بعد واپس چلی جاتی ہیں"۔۔وہ خفگی سے بولی اب وہ کھانا نہیں کھا رہی تھی۔۔
"انہیں اجازت نہیں ہے نا بیٹا اور انہیں اس وقت زیادہ سے زیادہ پڑھائی پے دھیان دینا ہے۔۔ویسے بھی چار سال تو گزر ہی چکے ہیں۔۔ اب کچھہ ہی وقت ہے پھر وہ یہیں ہوگی"۔۔
"یہیں ہوگی۔۔ آپ کا کیا مطلب ہے آپ نے ان کی شادی نہیں کروانی"۔۔جویریہ جو نوالہ اپنے منہ میں ڈال رہی تھی انکی بات سنے وہ کھانے کا نوالہ واپس پلیٹ میں رکھہ کر انکی طرف متوجہ ہوئی۔۔ہر بار پاشا انکے سامنے ضرور کوئی ایسی بات کردیتے تھے جس پے وہ چڑ جایا کرتی تھی۔۔
"ہاں کروائوں گا ضرور۔۔پر تب جب وہ چاہیں گی"۔۔وہ ہلکا سا مسکراتے پرسکون انداز میں بولے۔۔
پاشا نے کبھی کسی معاملے میں اپنی اولاد پے سختی نہیں کی تھی اور نہ ہی ان پر کسی قسم کا دباؤ ڈالا تھا۔۔وہ جو دل چاہیں کرتے تھے۔۔البتہ وہ کوئی اچھا کام ہو۔۔ اگر کوئی بری چیز یا برا کام ہوتا تھا۔۔ تو وہ انہیں ٹوک دیتے تھے۔۔اور ویسے بھی بچوں کو پیار دو۔۔ اور اس حد تک دو کے وہ بگڑے نہ پیار سے پیش آؤ تو سختی بھی ضروری ہے۔۔پاشا کے مقابلے میں جویریہ کچھہ زیادہ سخت تھی۔۔اور اتنی ہی حساس۔۔بچپن سے ہی اگر اسکول سے کسی بچے کی شکایت آجاتی تھی تو وہ انہیں ڈانٹتی تھی اور خفا بھی ہو جایا کرتی تھی۔۔جب کے پاشا کو انہیں سمجھانا بہتر لگتا تھا۔۔ان کے تین بچے تھے بڑا بیٹا ریان،پھر ماہ نور،اور تیسرے نمبر پے زینب۔۔ریان لنڈن میں تھا۔۔اس کا شوق تھا وہ باہر جا کر کام کرے۔۔اس نے ٹی. ٹیچ کیا تھا۔۔اور اب وہ انجینیئر تھا۔۔ماہ نور ایم بی بی ایس کر رہی تھی۔۔اور زینب ابھی کالیج پڑھہ رہی تھی۔۔
"ابا تاریخ بھی تے ہوگئی۔۔اور دولہے صاحب کا کچھہ پتا ہی نہیں"۔۔زینب نے اداسی سے پوچھا۔
"وہ بھی آجائے گا اگلےہفتے تک"۔۔۔۔اب کی بار ان کے چہرے پر کوئی تاثر نہیں تھا۔۔
"پھر بھائی ادھر ہی رہیں گے ابا یا بھابھی کو لیکر جائیں گے؟"۔۔۔وہ پوچھے بغیر نہ رہ سکی۔۔
اس بارے میں کچھہ کہا نہیں جا سکتا۔۔۔میرا نہیں خیال ریان یہاں رہے گا"۔۔۔۔وہ نا امیدی سے بولے۔۔۔
"جو بھی ہو۔۔میں اس بار ریان کو جانے نہیں دوں گی"۔۔۔جویریہ دو ٹک انداز میں بولی۔۔۔
"ہاں جیسے وہ آپکی بات مان لے گا اگلے تین سالوں سے خیال نہیں آیا اسے گھر کا نا ہی کسی کی یاد آئی کے وہ فون کر کے حال ہی پوچھہ لے"۔۔۔انہوں نے طنزیہ انداز میں کہا۔۔۔
"آپ تو جانتے ہیں۔۔۔وہ مصروف ہوتا ہے۔۔۔ایک تو اکیلا ہے اسے اپنی ہر چیز خود کرنی ہوتی ہے۔۔۔اس لیے اسے ٹائیم نہیں ملتا"۔۔۔انہوں نے اپنے بیٹے کی صفائی دی تھی۔۔۔
"کیا ضرورت تھی۔۔۔اسے باہر جانے کی اپنی پڑھائی مکمل کر لیتے اچھی جوب مل جاتی۔۔نہیں پر اسے تو باہر جانے کا بھوت سوار تھا"۔۔وہ بہت سنجیدگی سے بولے۔۔انکے اندر میں دکھہ تھا۔۔بیٹے کے چھوڑ جانے کا دکھہ۔۔جویریہ چپ ہوگئی وہ کہتی بھی کیا۔۔پاشا صحیح ہی تو کہہ رہے تھے۔۔اس لیے انہوں نے خاموشی اختیار کر لی۔۔
ماہ نور اور ریان گھر سے باہر ہی رہتے تھے۔۔۔گھر میں صرف پاشا جویریہ اور زینب ہوتے تھے۔۔۔ریان کے جانے پر پاشا بہت خفا ہوئے تھے۔۔۔وہ نہیں چاہتے تھے کے انکے بچے انکی نظروں سے دور ہو۔۔۔پر ریان رٹ لگائے بیٹھا تھا کہ اسے جانا ہے پھر بچوں کی زد کے آگے ماں باپ ہار جاتے۔۔۔پاشا نے بھی اسے اجازت دے دی تھی۔۔۔وہ وہاں جا کر فون کر کے انکا حال بھی نہیں پوچھتا تھا۔۔۔پاشا کی امیدیں ختم ہو چکی تھی جیسے ہر باپ کو اپنے بیٹے سے امیدیں ہوتی کے وہ ہمارے بڑھاپے کا سہارا بنے گا پر جو جوانی میں آپکو چھوڑ جائے اورحال بھی نہ پوچھے تو وہ کیسے لوٹ کے آتا۔۔
☆☆☆☆☆
اگلے دن وہ یونیورسٹی میں اپنی امپورٹنٹ کلاسیس لے کر ہاسپیٹل کے میڈیسن ڈیپارٹمینٹ میں موجود تھی۔۔ جہاں اسے پیشنٹس کو دیکھنے اور انکی کیئر کرنے کا موقا ملا تھا۔۔وہاں پر اسے اس کے سینیئر ڈوکٹرس گائیڈ کرتے تھے۔۔اسے پیشنٹس کی ہسٹری لینے فزیکل اگزیمینیشن کرنے ڈائگنوس اور ٹریٹمینٹ کرنے میں اس کے سینیئر ڈوکٹر فیروز نے اسے بہت گائیڈ کیا تھا۔۔زارا ،سائرا اور ردا کے ڈیپارٹمینٹ الگ تھے وہ روز ایک دوسرے سے ملا کرتیں تہی مگر آج انکی ملاقات نہ ہو سکی ۔۔ آج ان کا پورا دن بیزی رہا تھا۔۔۔ماہ نور اب اپنے کام سے فارغ ہو چکی تھی۔۔اب وہ ہاسپیٹل سے باہر نکلے سامنے ہاسٹل جا رہی تھی۔۔ڈارک گلابی ڈریس،اس پے وائیٹ ڈوکٹر کا کوٹ پہنا ہوا تھا،بالوں کی سلیکے سے چوٹی بنی ہوئی تھی چہرا ہمیشہ کی طرف کہلکہیلاتا پر اس پے آج کچھہ تھکے تھکے تاثرات تھے۔۔اب وہ اپنے کمرے کا دروازا کھولے سائیڈ بیڈ پے پرس پھینکے بیڈ پے لیٹ چکی تھی۔۔آنکھیں بند کیے اس نے سکون کا سانس لیا۔۔دوپہر گزر چکی تھی۔۔آہستہ آہستہ سورج کی روشنی کم ہونے لگی تھی۔۔تھوڑی دیر لیٹنے کے بعد وہ اٹھی تھی۔۔اور اپنا کوٹ اتارے الماری میں سیٹ کر کے رکھا۔۔سامنے ٹیبل سے پانی کی بوتل اٹھائے اس نے اپنے ہونٹوں سے لگائی۔۔پانی پی کر بوتل وہیں رکھے وہ پورے کمرے کو دیکھہ رہی تھی پھر بیڈ کی سائیڈ پے بیٹھے سوچنے لگی۔"شام ہونے کو ہے اور یہ دونوں ابھی تک نہیں آئی ویسے تو مجھہ سے پہلے آ جاتی ہیں۔۔اس نے اب نوٹ کیا تھا شاید تھکن کی وجہ سے کچھہ محسوس ہی نہیں کیا تھا۔۔اچانک کمرے کا دروازا کھلا اس نے بے اختیار نظریں اٹھائے دروازے کی طرف دیکھا۔۔
"تم آگئی واپس کلینک سے؟"ان کی ہاسٹل کی گرل سامنے سے آتے ہوئے پوچھی اب اس کے ساتھہ بیڈ کے کچھہ فاصلے پے بیٹھی تھی۔۔
"ہاں ابھی کچھہ دیر ہوئی ہے۔۔ردا ، اور زارا نہیں آئی تم نے دیکھا ہے انہیں"۔۔اس نے اس لڑکی سے پوچھا۔۔
"ردا کا نہیں پتا زارا کو تو میں نے کلینک سے نکلتے ہوئے دیکھا تھا"۔۔
"چلو صحیح ہے"۔۔۔
"ماہ نور تمہارے پاس پیکیج ہے"۔۔۔
"ہاں کیوں؟"
"مجھے ہوٹس پوٹ چاہیے تھا۔۔"
"کیوں وائے فائے نہیں چل رہا کیا؟"
"نہیں یار اچانک ہی بند ہوگیا۔۔بلال پریشان ہو رہا ہوگا"۔۔وہ لڑکی پریشانی سے بولی۔۔
"کون پریشان ہو رہا ہوگا؟"۔۔ماہ نور نے الجھے ہوئے چہرے کے ساتھہ اس سے سوال کیا۔۔
"میرا بوائے فرینڈ"۔۔وہ ہلکا سا مسکراتے ہوئے جیسے فخر سے بتا رہی تھی۔۔ماہ نور کچھہ پل کچھہ بول نا سکی اور حیرت بھری نگاہوں سے اسے دیکھہ رہی تھی۔۔
"کیا ضرورت پڑی ہے بوائے فرینڈ بنانے کی"۔۔اس کا چہرا سنجیدہ تھا آواز سخت تھی۔۔وہ لڑکی کچھہ بول نا سکی۔۔
"تمہیں پتا بھی ہے کتنی بری بات ہے یہ۔۔سمجھو یہ تو ایک گالی ہے لڑکی کے لیے۔۔تمہیں اپنے ماں باپ کی عزت کا خیال ہے لڑکی۔۔لڑکے کتنے برے ہوتے ہیں تمہیں اندازا بھی ہے"۔۔وہ اب سنجیدگی سے اسے سمجھانے کی کوشش کر رہی تھی۔۔
"ہاں مجھے پتا ہے پر بلال بہت اچھا ہے۔۔ اور وہ جلد مجھہ سے شادی کرے گا"۔۔وہ ہنستے ہوئے اسے بتا رہی تھی۔۔
"اندھا اعتبار کرنا بھی آپکو لے ڈوبتا ہے"اس بار اس کی آواز میں نرمی اور اداسی تھی۔۔اس کے دل میں جیسے درد سا اٹھا۔۔جیسے ماضی،اسکی باتیں،اور کیا کچھہ،اس نے اپنی سوچوں کو جھٹکا۔۔تم چھوٹی نہیں جو میں تمہیں سمجھاؤں ہر چیز کے سمجھنے کی عقل ہے تم میں ہاں عقل پے پردے پڑ گئے ہیں۔۔ وہ الگ بات۔۔اس نے طنزیہ انداز میں کہا۔۔سامنے بیٹھی لڑکی گردن جھکائے بیٹھی تھی۔۔۔۔ماہ نور کی عادت تھی۔۔وہ ہر چیز منہ پر کہہ دیتی تھی۔۔
"لکین وہ مجھہ سے محبت کرتا ہے۔۔ اور مجھے پتا ہے کہ وہ مجھہ دوکا نہیں دے گا"۔۔اس نے وضاحت دی۔۔
"اگر سچی محبت آپکے نصیب میں لکھی ہوگی تو وہ آپکو مل جائے گی ضروری نہیں۔۔ اس کے لیے آپ حرام ریلیشن شیپ قائم کرئیں"۔۔وہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے بولی اور وہ لڑکی لاجواب ہوگئی۔۔
"سوری میں تمہیں ضرور دیتی بٹ۔۔وہ بولتے بولتے روکی"۔۔وہ اسے انکار کرنا نہیں چاہتی تھی اور نہ اس نے کبھی کیسی کو کسی چیز کے لیے انکار کیا تھا۔۔پر یہ جان کر وہ نہیں دینا چاہتی تھی۔۔اگر وہ اسے ہوٹسپوٹ دیتی۔۔ تو وہ یہ سمجھتی کے اس نے اس کی مدد کی وہ بھی برے کام میں وہ بھی اپنے بوائے فرینڈ سے بات کرے یہ اس کے لیے گوارا نہیں تھا کم از کم وہ کسی برے کام میں کسی کی مدد کرنا نہیں چاہتی تھی۔۔"میری فون میں چارجینگ نہیں ہے"۔۔اسے اور کوئی بہانا نہیں ملا اس لیے اس نے یہی کہہ دیا۔۔۔۔
"اٹس اوکے کوئی بات نہیں میں مینج کر لونگی"۔۔وہ ہلکی مسکراہٹ کے ساتھہ کہتی کمرے سے باہر جا چکی تھی۔۔
"اللہ کس طرح کے لوگ ہیں آج کل"۔۔اس نے لمبا سانس لیا اور وہیں بیڈ پے لیٹ گئی۔۔وہ کب نیند کی وادیوں میں چلی گئی اسے پتا ہی نا چلا۔۔
☆☆☆☆☆☆
صبح کا وقت تھا۔۔۔وہ ناشتا ٹیبل پے لگوا رہی تھی۔۔۔تھوڑی دیر میں ناشتہ لگ چکا تھا۔۔۔اور انہوں نے ملازم کو بیجا تھا کہ سب کو بلا لے۔۔۔اچانک خیال آتے وہ سیدھا اوپر کی سیڑیاں چڑکے ایک کمرے میں داخل ہوئی۔۔۔جہاں پر تکریبن اندھیرا تھا ایسا لگ رہا تھا جیسے رات ہے۔۔۔انہوں نے ہاتھہ بڑا کر بلب کا بٹن آن کیے تھا۔۔۔
"زوبیا"۔۔۔وہ اس کے پاس گئی جو سامنے چیئر پے بیٹھی ہوئی تھی۔۔۔اس نے کوئی جواب نہیں دیا تھا۔۔۔
"زوبیا۔۔۔تم میری آواز نہیں سن رہی؟" اب وہ اس کی بازو پکڑے ہوئے بولی۔۔۔ اور اس نے نظریں اٹھائے ان کی طرف دیکھا۔۔۔
"سن رہی ہوں"۔۔۔اس نے یہ کہہ کر اپنا بازو چھڑوایا۔۔۔
"اتنی نافرمان ہوگئی ہو تم ماں کی بات سن کر بھی جواب نہیں دے رہی"۔۔۔وہ غصے میں بولی۔۔۔
"کیا جواب دوں میں آپ کو آپ اسی لیے آئی ہونگی کہ بابا کہہ رہے ہیں آکر ناشتہ کر لوں۔۔۔اور میرا جواب آپکو پتا ہے"۔۔۔وہ انکی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے سخت لہجے میں بولی۔۔۔ اور چیئر سے اٹھہ کر بیڈ پے جا بیٹھی۔۔۔
"تم چاہتی کیا ہو؟ کیوں ہماری زندگی عذاب بنا رہی ہو"۔۔۔وہ بے بسی سے بولی۔۔۔
"مجھے کچھہ چاہیے بھی ہوگا نہ تو میں کم از کم آپ لوگوں سے نہیں مانگونگی۔۔۔کیونکے آپ لوگ کچھہ نہیں دے سکتے سوائے سزا کے"۔۔۔وہ آنکھے بڑی کیے ایک ایک لفظ پے زور ڈالے بولی۔۔۔فائزا کے دل پے جیسے کسی نے خنجر چلایا ہو۔۔۔نم آنکھوں سے اسے دیکھہ رہی تھی۔۔۔اور اٹھہ کر وہاں سے چلی گئی۔۔۔
"ہاں بولو"۔۔۔وہ کال پے بولا۔۔۔
"سر آپ نے رضا کو جو فائیل دی تھی وہ فائیل اس کے پاس نہیں ہے"۔۔اگلا بندہ کال پے بولا۔۔
"کیا مطلب نہیں ہے؟" اس نے پوچھا۔۔اس کے چہرے پے تجسس ابھرا۔۔
"سر وہ اس نے کہا کہ اس سے میم نے فائیل لی تھی اور وہ ابھی تک اوفس نہیں آئی ہماری میٹنگ ہے آج اور فائیل امپورٹنٹ ہے"۔۔
کیا؟ ۔۔اس نے چونک کر کہا۔۔میں آپ کو تھوڑی دیر میں اوفس میں ملتا ہوں۔اس نے یہ کہتے کال بند کر لی اور کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا۔۔۔چھوٹی سی مہرون آنکھیں۔۔۔ گورا گلابی چہرا جیسے کوئی پٹھان ہو سیاہ بال جو ماتھے پر بکھرے پڑے تھے۔۔ اس کے بالوں کو دیکھہ کہ انداز ہو رہا تھا کہ وہ ابھی فریش ہو کر آیا ہے۔۔۔اس کے چہرے پے کوئی تاثر نہیں تھا بے مقصد وہ کھڑا باہر دیکھہ رہا تھا۔۔۔جب دروازہ بجا۔۔۔
"آجائے"۔۔۔ایک ملازم کمرے میں داخل ہوا۔۔
"صاحب آپ کو بیگم صاحبہ نیچے ناشتے پے بولا رہی ہیں "۔۔۔
"آپ جائیں میں آتا ہوں"۔۔۔اس کے کہنے کہ مطابک وہ جا چکا تھا۔۔۔
"اسلام الیکم"۔۔۔وقار احمد چیئر کھینچ کر اس پے بیٹھے۔۔۔جہاں سب بیٹھے ناشتا کر رہے تھے بی جان جو سب سے آگے چیئر پے بیٹھی تھی اور اس کی دائیں جانب فیاز احمد اور انکی بیوی صائمہ بیٹھی تھی۔۔اور ٹیبل کی بائیں جانب ایک چیئر چھوڑ کر وقار احمد بیٹھے تھے اور ان کے ساتھہ ان کی بیوی فائزا۔۔۔وقار احمد کی ایک ہی بیٹی تھی۔۔۔اور فیاز احمد کی کوئی اولاد نہیں تھی انکی ہمیشہ خواہش تھی کہ انہیں اللہ بیٹے سے نوازے پھر بیشک اللہ جو چاہے وہی ہوتا ہے۔۔۔
"والیکم السلام"۔۔۔بی جان نے آہستہ آواز میں جواب دیا۔۔۔
"زید کیوں نہیں آیا ابھی تک۔۔۔آپ نے ملازمہ کو بھجوایا تھا کہ انہیں بلا کر لائے"۔۔۔بی جان فائزا سے مخاتب ہوئی۔۔۔
"جی اماں میں نے بیجھا تھا۔۔۔"پتا نہیں کیوں نہیں آیا ابھی تک؟"بی جان کھانا نہیں کھا رہی تھی۔۔۔ انکی بس نظریں سیڑیوں پے جمی ہوئی تھی۔۔۔جنہیں وقار احمد نے با خوبی نوٹ کیا۔۔۔
"اماں وہ آجائے گا آپ کھانا کھائیں"۔۔۔وقار احمد نے دادی سے مخاتب ہو کر کہا کیونکہ وہ کھانا نہیں کھا رہی۔۔۔
"ہاں زید آجائے،تو اطمنان سے کھائوں گی"۔۔۔بی جان نے کھانے کو ہاتھہ بھی نہیں لگایا تھا۔۔۔ وہ ہمیشہ زید کو بلواتی تھی جب وہ آکر کھاتا تھا۔۔۔ تب ہی کھاتی تھی۔۔۔بالاآخر انکا انتظار ختم ہوا وہ جو آہستہ آہستہ قدم بڑھاتا۔سیڑیوں سے اتر رہا تھا۔وائیٹ شرٹ،بلیک جینس،آستین کہنیوں تک سیٹ کرتا اب وہ سیڑیاں عبور کر چکا تھا۔۔۔
"اسلام علیکم"۔۔۔وہ کرسی کھینچتا اب اس پر بیٹھا۔۔۔
"بہی جلدی آجایا کرو۔۔۔اماں سے کھانا کھایا نہیں جاتا تمھارے بغیر"۔۔۔وقار احمد نے نوالہ منہ میں ڈالتے ہوئے کہا۔۔۔
"جی آئندہ خیال رکھوں گا"۔۔۔اس نے سر ہلایا۔۔اور کھانا کھانے لگا۔۔۔۔
"زوبیا نہیں آئی؟"وقار احمد اپنی بیوی کی طرف متوجہ ہوئے۔۔۔
نہیں۔۔۔فائزا نے یک لفظی جواب دیا۔۔
کیوں؟انہوں نے سوالیہ انداز میں پوچھا۔۔
"اس نے کہا، اسے بھوک نہیں"۔۔۔۔۔
"اسے کب بھوک ہوتی ہے؟" وقار احمد نے لفظوں پے زور دے کر پوچھا۔۔تو وہ کچھہ نہ بولی۔۔۔
"وہ ہماری نرمی کا فائدا اٹھا رہی ہے۔۔پر اب بس۔۔میں اسے خود ہی لیکے آتا ہوں"۔۔۔وہ غصے میں چئیر سے اٹھے۔ایک قدم بڑیا ہی تھا جب وہ اماں کی آواز پے رکے۔۔۔
"بیٹھہ جاؤ وقار احمد اتنا اکھڑنے کی ضرورت نہیں ہے"۔۔۔بی جان نے سنجیدگی سے کہا۔۔۔سب کھانا کھاتے کھاتے رکے تھے وقار احمد وہیں کھڑے انہیں دیکھہ رہے تھے۔۔۔"میں نے کہا ہے کہ بیٹھہ جائیں"بی جان نے اپنا جملا دہرایا۔۔۔وہ واپس اپنی چیئر پے آ بیٹھے۔۔۔
"آپ کیا چاہتی ہیں کہ میں اسے ایسے ہی چھوڑ دو تاکی وہ پاگل ہو جائے"۔۔انکا لہجا سخت تھا۔۔۔
"کاش آپکو اتنا خیال ذنیرہ کا آیا ہوتا"۔۔۔انہوں نے افسوس کیا بے حد افسوس۔۔۔ان کی اس بات پر سب انہیں دیکھہ رہے تھے کوئی بھی کھانا نہیں کھا رہا تھا۔۔۔
"اسکا ذکر نا ہی کریں تو بھتر ہے اماں وہ اس لائق نہیں تھی"۔۔۔وہ دوٹک انداز میں بولے۔۔۔انکے کہے الفاظ پے زید نے بے اختیار نظریں اٹھائے انکی طرف دیکھا۔۔۔دل میں جیسے درد سا اٹھا۔۔۔آنکھیں سرخ ہو رہی تھی۔۔
"دوسروں کو اتنا برا بھی مت بناؤ۔۔وقار احمد جیسے علیٰ ظرف اور کوئی نہیں"۔۔انہوں نے ٹوکنے والے انداز میں صاف گوہی کی۔۔وہ ان کا بیٹا تھا۔۔پر وہ اسے با خوبی جانتی تھی بی جان نے کبھی بھی اپنے بیٹوں کی غلطیوں کو ڈھانپا نہیں تھا۔۔
"صحیح کہہ رہا ہے۔۔وقار اس لڑکی نے ہمیں دیا ہی کیا تھا۔۔بھائی بھابھی کے انتقال کے بعد اپنی بیٹی کی طرح خیال رکھا۔۔اس کے بدلے اس نے کیا دیا۔۔ صرف رسوائی۔۔ وہ لڑکی بدکردار تھی"۔۔اب کی بار انکے دوسرے بیٹے فیاز احمد بولے تھے۔۔ اس سے آگے وہ بولتے جب بی جان نے انہیں ٹوکہ۔۔
فیاز!۔۔ ایک اونچی آواز پورے گھر میں گونجی تھی۔۔ وہ آنکھیں بڑی کیے سخت غصے میں انہیں دیکھہ رہی تھی۔۔اور انکے بولے گئے الفاظ زید کو آگ کے شولے کی طرح دل میں چبھے تھے۔۔ہاں اس نے غلطی کی تھی۔ ہوگئی تھی اس سے اس نے اعتراف بھی تو کیا تھا نہ۔۔پھر بھی کیا وہ اتنا بڑا گناھ تھا۔جو نا قابل معافی تھا۔اس نے اپنی مٹھیاں بیجی۔اس کے دل سے جیسے خون رسنی لگا ہو۔۔وہ کیسی کو بغیر کچھہ کہے خاموشی سے چیئر سے اٹھہ کر بڑے ڈگ برتا باہر نکل چکا تھا۔۔
"اب بھی وقت ہے سنمبھل جاؤ۔۔خدا نہیں بخشتا انکو جو دوسروں کو تکلیف دیں۔۔ انہیں سکون سے جینے نہیں دیتے ہیں۔۔ہر شخص گنہگار ہے۔۔ کبھی خود سے سوال کرو کہ کتنے گناھہ کیے ہیں۔۔خدا نے پردہ رکھا ہے گناھوں پر اس لیے رسوائی نہیں ہوئی۔۔ جس دن پردہ اٹھیگا اس دن فیصلا ہوگا"۔وہ افسوس سے یہ کہہ کر۔۔ وہاں سے چلی گئی تھی۔اب وہ بیٹھہ کر کرتی بھی کیا۔۔ان کی بھوک بھی اڑھہ چکی تھی۔۔ان میں اتنی ہمت نہیں تھی۔وہ انکی ترشی بھری باتیں سنتی۔اب وہ دونوں بھائی بھی اٹھہ کر اوفس کے لیے روانا ہو گئے۔۔
"کونسی صبح ہوگی۔۔ جب یہاں سکون سے کھانا کھایا جائے گا"۔۔ صائمہ پوری ٹیبل کو دیکھہ رہی تھی۔۔ جہاں کھانا ویسا کا ویسا پڑھا تھا۔بس ہر صبح کی طرح ایک دوسرے کا دل جلایا گیا تھا۔۔
"اگر زوبیا ایسا نہ کرے تو گھر میں ہنگامہ نہ ہو پر نہیں۔۔ اپنی مرضی کی مالکین ہے۔۔ہماری باتیں کہاں مانتی ہے وہ۔۔ہم پے ایسا جتاتی ہے۔۔ جیسے اس کے ماں باپ نہیں دشمن ہیں ہم۔۔ذنیرہ کے ساتھہ ہونے والی ہر چیز کا قصور وار وہ ہمیں ٹھراتی ہے"۔۔فائزا کا لہجا بہت ہی مدھم اور دکھہ سے بھرا تھا۔ آنکھوں میں نمی چھائی ہوئی تھی۔۔صائمہ چچی نے بے اختیار انکی طرف دیکھا۔۔انہیں ترس آیا تھا اسے دیکھہ کے۔۔واقعی اپنے بچوں کو تکلیف میں دیکھنا کتنا تکلیف دہ ہوتا ہے۔۔ شاید اس بات کا اندازا فائزا کو آج ہو گیا ہو۔۔وہ دل ہی دل میں کہہ رہی تھی۔۔دوسروں کا دل جلا کر بھی بھلا خوش رہا جاتا ہے۔۔
بی جان کے تین بیٹے اور ایک بیٹی تھی۔۔سب سے بڑا ملک،دوسرے نمبر پے،وقار احمد،اور تیسرا،فیاز،اور ایک بیٹی تھی۔۔اس نے اپنی بیٹی کی شادی کر دی تھی وہ اپنے گھر میں ہی خوش تھی۔۔اور بہت کم آتی جاتی تھی۔۔ملک ایک بہت سنجیدہ، اور سلجھے، ہوئے آدمی تھے۔۔انہوں نے کبھی اپنے ماں باپ کی نا فرمانی نہیں کی تھی۔۔ اس کے ابا کا بیزنیز تھا۔۔ پھر انکی وفات کے بعد بڑا ہونے کے ناتے اسے ملک ہی سنمبھالا کرتے تھے۔۔وقار احمد جب بھی آفس جاتے تھے تو کسی نہ کسی بات پر جھگڑا ہی ہوتا تھا۔۔ ان کا وہ کبھی گھر میں جھگڑا کیے بغیر نہیں رہے تھے۔۔ ہر چھوٹی بات پر انہیں غصہ آتا تھا اور غصے میں انہیں نا اپنی ماں نظر آتی تھی نا بیوی وہ شروع سے ہی انتہائی خودغرض تھے۔۔پھر اچانک ایک حادثے میں ملک اور اس کی بیوی کی موت ہوگئی۔۔اس کے بعد تو جیسے سب کچھہ بدل گیا تھا گھر کا سکون ختم ہو چکا تھا۔۔کوئی ایسی صبح نہیں آتی تھی انکے گھر میں جس دن سب نے خوشی خوشی کھانا کھایا ہو۔۔اور یہ وقار احمد کی مھربانی ہوتی تھی۔۔ کہ وہ ہمیشہ پرانی باتیں کھوجتے رہتے تھے۔۔
بی جان نے آہستہ دروازا کھولے اندر دیکھا۔۔کمرے میں پورا اندھیرا تھا بس ہلکی روشنی تھی۔۔وہ آہستہ قدم بڑھائے بیڈ پے اس کے پاس بیٹھی جہاں وہ الٹے منہ لیٹی ہوئی تھی۔۔
"زوبی میری بچی"۔۔بی جان نے اس کے بالوں پے ہاتھہ پھیرا اس کی پشت بی جان کی طرف تھی۔بی جان کی آواز سنے وہ جھٹ سے سیدھی ہوئی۔۔اور انہیں گلے لگا لیا۔۔
"کیسی ہے میری بچی؟"۔۔وہ اس کی بالوں میں ہاتھہ پھیرے پوچھہ رہی تھی۔۔
"ذنیرہ زوبیا کے ساتھہ نہیں،زوبیا کیسی ہو سکتی ہے"۔۔وہ ابھی بھی دادی کو گلے لگائے ہوئے تھی۔۔اس کی آنکھیں بھیگ چکی تھی۔۔دادی اس کی بات سنے کچھہ دیر کچھہ نا کہہ پائی۔۔
"ناشتا کرنے کیوں نہیں آئی ؟"۔۔
"دادی میرا دل نہیں کرتا باہر آنے کو"۔۔وہ نیچے مو کیے مدھم آواز میں بولی۔۔
"کیوں نہیں کرتا میری بچی کا دل۔۔ اس طرح پورا دن کمرے میں رہوگی تو پاگل ہو جاؤگی۔۔ابھی تو تمھاری جوانی کے دن ہیں"۔۔
"دادی جوانی کے دن ہی برباد ہوگئے ہیں"۔۔۔۔
"پھر کیوں کر رہی ہو۔۔۔۔ برباد پتا ہے۔۔ سب سے بیوقوف وہی ہے۔۔جو جانتے بجتے وہ چیز کرے"۔۔
"پر دادی میں کیا کروں میرا دل نہیں کرتا۔۔کسی بھی چیز کو۔۔ذنیرا کے بعد میری زندگی میں اندھیرا پھیل گیا ہے"۔۔اس کی آنکھیں میں نمی اتری تھی۔۔
"نہیں میرے بچے! روتے نہیں۔۔وہ آجائےگی دیکھنا جلدی ٹھیک ہو کر"۔۔انہوں نے اسے تسلی دی۔۔جنہیں خود تسلیوں کی ضرورت تھی۔
"تو کیا دادی اسے ان چیزوں سے آزادی ملیگی۔۔جو اس کے پیچھے ہیں۔۔کیا اس گھر کے لوگ اسے یہاں سکون سے رہنے دینگے"۔۔وہ بی جان سے پوچھہ رہی تھی۔۔۔
"ایک بار جو چیز چلی جائے۔۔ وہ کبھی واپس نہیں آسکتی۔۔ذنیرا کی ایک غلطی نے اس سے اس کا سب کچھہ چھین لیا۔۔ کاش اس نے یہ غلطی کبھی نہ کی ہوتی"۔۔انکی آنکھوں سے آنسوں ٹوٹ کے گرا وہ اپنی عینک اتارے آنکھیں مسلنے لگی۔۔
"دادی ہم انسان ہیں فرشتے نہیں جو ہم سے غلطیاں نا ہو ۔۔کیوں لوگ انسانوں کو ایسا سمجھہ رہے ہیں ہماری ایک غلطی پے ہمیں اتنا کوستے ہیں۔۔جیسے زندگی میں ان سے کوئی غلطی نہ ہوئی ہو"۔۔وہ جیسے بے بسی کے عالم میں انہیں دیکھہ رہی تھی۔۔
"انسان ایسے ہی ہوتے ہیں۔۔میرے بچے انکا دکھہ کرنا چھوڑ دو"۔۔دادی نے اس کے گال کو سہلاتے ہوئے کہا۔۔
"دادی! غیروں کی بات الگ ہے۔۔ جب آپ کے اپنے بھی آپکو نا سمجھیں۔۔آپ کو برا کہیں۔۔ایسا سلوک رکہیں جیسے غیر ہو،دکھہ ہوتا ہے۔۔۔۔اور ذنیرا کو بھی دکھہ ہوا تھا اسکی تکلیف کوئی نہیں دیکھہ رہا تھا۔۔اس کا درد اسکی حالت کیوں کوئی نہیں سمجھہ رہا تھا"۔۔ اس نے چیکھنے والے انداز میں کہا۔۔اس کے آنسوں گالوں پر بہہ چکے تھے۔۔
"کوئی اپنا نہیں ہوتا میری جان کوئی نہیں۔۔سب کو اپنی تکلیف دکھائی دیتی ہے ۔۔کوئی مرے یا جیے کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔۔میں نے ساری عمر پالا اپنے بچوں کو ہر وہ چیز دی۔۔ جو وہ چاہتے تھے آج کیا دے رہے ہیں وہ مجھے۔۔کچھہ نہیں۔۔ہر ایک کو اپنا خیال ہے بس یہی حقیقت ہے"۔۔۔۔
"پتا ہے دادو بچپن میں مجھے بہت اچھا لگتا تھا۔۔بہت خوشی ہوتی تھی۔۔ کہ میں ایک امیر گھرانے میں پیدا ہوئی ہوں جہاں مجھے ہر چیز مل سکتی ہے۔۔ جو میں چاہوں مجھے کسی چیز کے لیے ترسنا نہیں پڑیگا۔۔پر جیسے جیسے۔۔ میں بڑی ہوئی مجھے اندازہ ہوا۔۔ کہ۔۔وہ کہتے کہتے رکی تھی۔۔ اس کی آنکھیں بھیگی ہوئی تھی۔۔ آواز بھاری تھی۔۔کہ امیر گھرانوں میں رہنے والے لوگ صرف دیکھنے میں امیر ہوتے ہیں۔۔ دل سے وہ بہت غریب ہوتے ہیں۔۔وہ ہمیشہ خود کو بڑا سمجھتے ہیں۔۔ اور خود سے نیچے والوں کو اٹھانے کی بجائے۔۔۔ اور گرا دیتے ہیں۔۔کیوں وہ یہ بھول جاتے ہیں۔۔کہ ہم سب ایک ہی مٹی کہ بنے ہیں۔۔پھر اتنا غرور کیوں؟"۔۔وہ بھیگی ہوئی آنکھوں سے اپنی دادی کو دیکھہ رہی تھی۔۔مٹی سے بنا ہے مٹی میں ہی جائیگا۔۔پھر اس غرور کا کچھہ نہیں ہے فائد۔۔وہ دادی کی گود میں سر رکھے لیٹی ہوئی تھی اس کے آنسوں دادی کے کپڑوں میں جذب ہو رہے تھے۔۔کیا دکھہ تھا۔۔ کیا تکلیف۔۔کیا وقت تھا کیا یادئیں تھی۔۔ کیوں گرے تھےآنسوں گالوں سے۔۔کس لیے کی جا رہی تھی جنگ خود سے۔۔ کون تھی؟۔۔ آخر ذنیرہ نامی لڑکی۔۔ جیسے کہیں بدکردار ٹھرایا جا رہا تھا۔۔ تو کہیں۔۔اس کے لیے آنسوں بہاہے جا رہے تھے کون تھی۔۔وہ لڑکی کہاں تھی۔۔ کیا اسکا کوئی نامو نشان تھا۔۔ یا پھر وہ مٹ چکی تھی۔۔اسے زندگی میں رہنے کا حق تھا۔۔ یا بس وہ یادوں میں رہ رہی تھی۔۔
زندگی میں ہمیشہ وہی چیزیں ہوتی ہیں جن کا ہم نے کبھی گمان بھی نہیں کیا ہوتا۔۔بہت چیزیں جو ہم کھونے سے ڈرتے ہیں وہ ہم کھو دیتے ہیں۔۔بہت چیزیں جنہیں ہم چھوڑنا نہیں چاہتے پر نا چاہتے ہوئے بھی چھوڑنی پڑتی ہیں۔۔کبھی کوئی شخص ہماری زندگی میں تکلیف بن کر آتا ہے تو کوئی خوشیوں کی وجہ جن کے ساتھہ ہونے سے ہمیں سکون ملتا ہے۔۔ہمیں اچھا لگتا ہے۔۔زوبیا اور ذنیرا بھی ایسے ہی تھی۔۔ وہ دونوں کزینس کم دوستیں زیادہ تھی۔۔دونوں ایک دوسرے سے بہت پیار کرتی تھی بہت خیال رکھتی تھی۔۔ ایک دوسرے کا۔۔پر خدا کو شاید کچھہ اور ہی منظور تھا۔۔آج بھی وہ دونوں ایک دوسرے سے اتنا ہی پیار کرتی ہیں جتنا پہلے فرق یہ ہے کہ پہلے وہ دونوں ساتھہ ہوتی تھی اور اب نہیں ہیں۔۔
☆☆☆☆☆☆
