3... قسط
یہ کیا بکواس ہے"۔۔اس نے چلاتے فائیل ٹیبل پہ پھینکی۔۔"وہ نیچے سر جکائے کھڑا تھا۔۔
"وہ فائیل کہاں ہے۔۔جو میں نے آپ کو دی تھی"۔۔اس نے سخت تیوروں کے ساتھہ پوچھا۔۔
"سر وہ میم خدیجا نے مجھہ سے لی تھی۔۔ کہا کہ آپکو دے دیگی"۔وہ نظریں جھکائے بولا۔۔
"فائیل آپکو کس نے دی تھی"۔۔وہ اپنا غصہ ظبط کیے
بولا۔۔
"آپ نے سر"۔۔ وہ زمین میں نظریں گاڑے کھڑا تھا۔۔
پھر!؟۔۔ وہ ایک بار پھر غرایا تھا۔۔اور اپنا ہاتھہ غصے میں ٹیبل پے دے مارا۔۔ سامنے کھڑا شخص کانپ گیا۔۔
"سو۔۔ری سر"اسکے الفاظ ٹوٹے تھے وہ شرمندہ تھا۔۔
اس نےاسے باہر جانے کا اشارا دیا۔۔ اور وہ چلا گیا۔۔
وہ چیئر پر سر ٹکائے آنکھے بند کیے خود کو پرسکون کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔۔ بات تو اتنی بڑی نہیں تھی پھر اسے اتنا غصہ کیوں آیا تھا۔۔ یہ غصہ فائیل کا تھا یا ان باتوں کا۔۔ بچپن سے ہی وہ غصے کا بہت تیز تھا۔۔ پر وہ اپنا غصہ ضبط کر لیتا تھا۔۔ اچانک دروازا کلنے کی آواز آئی تو اس نے بے اختیار آنکھیں کھولی۔۔
"زید؟ " وہ اندر داخل ہوتے آہستہ آواز میں بولے۔۔
اس نے اپنا سر اوپر کرتے سامنے کھڑے شخص کو دیکھا۔۔ جو اسے ہی دیکھہ رہا تھا۔۔"جی چچا جان"اس نے نورمل ہوتے مختصر سا جواب دیا ۔۔اور سیدے ہو کر لیپ ٹوپ پے کام کرنا شروع کر دیا۔۔
"کیا ہوا ہے ؟باہر تمھارے چلانے کی آوازیں آرہی تھی؟"وہ تھوڑا آگے آکر کھڑے ہوگئے۔۔
"کچھہ نہیں چچا جان بس تھوڑا غصا آگیا تھا"۔۔۔اس نے اتنا ہی جواب دیا۔۔۔ وہ بھانپ گیے تھے کہ وہ برے موڈ میں ہے اور وہ اس کے غصے سے بچپن سے واقف تھے کیسے وہ غصہ آنے پر چیزیں توڑ دیتا تھا۔۔ پر وقت کے ساتھہ وہ بدل گیا تھا۔۔ اسے آج بھی اتنا ہی غصہ آتا تھا پر وہ ضبط کر لیتا تھا۔۔ اس لیے مزید کچھہ نہ کہتے وہ روم سے باہر چلے گئے۔۔
☆☆☆☆☆☆
"معاذ بھائی آج آپ مجھے کالیج چھوڑ دیں گے؟"وہ کمرے میں داخل ہوتے ہوئے بولی۔۔
"موئز کہاں ہے؟"اس نے اسے دیکھے بغیر پوچھا۔۔نظریں ابھی تک لیپ ٹوپ پے مرکز تھی۔۔
"وہ کہہ رہے ہیں وہ مجھے لے کر نہیں جائیں گے"۔۔وہ معصومیت سے بولی۔۔
"کیوں کوئی لڑائی ہوئی ہے تم دونوں کے بیچ"۔۔اس نے لیپ ٹوپ سے نظریں ہٹائے اسے دیکھا۔۔
"نہیں وہ کہتے ہیں۔۔انہیں شرم آتی ہے مجھے اپنے ساتھہ لے کے جاتے ہوئے"۔۔اس نے دھیمے لہجے میں آہستہ آہستہ الفاظ ادا کیے۔۔
"واٹ؟ "اس کے منہ سے بے اختیار نکلا۔۔اب وہ چیئر سے اٹھہ کھڑا ہوا تھا۔۔
"وہ کہتے ہیں میں دوپٹہ پہن کر جاتی ہوں کالیج تو ان کے دوست ان کا مزاک اڑاتے ہیں کے تمھاری بہن بی بی بن گئی ہے"۔۔ایزل سر جھکائے معاذ کو اپنے بھائی کی ساری باتیں بتا رہی تھی۔۔وہ غصے سے لیپ ٹوپ بند کرتا کمرے سے باہر نکلا وہ بھی اسکے پیچھے لپکی۔۔
"موئز موئز"۔۔لاؤنچ میں داخل ہوتے اس نے اسے آواز دی۔۔
"کیا تم مجھے آرام سے نہیں بلا سکتے قسم کھائی ہے کیا کہ بلانا ہے تو چلا چلا کر"۔۔وہ سیڑیوں سے اترتا اس کے قریب آکر کھڑا ہوا۔۔
ایزل کو کالیج کیوں نہیں لے کر جا رہے؟"۔۔
"وہ۔۔بس میرا دل نہیں کر رہا"۔۔وہ سینے پے ہاتھہ باندھے بولا۔۔
"ابھی جاؤ اور شرافت سے اسے کالیج چھوڑ کر آؤ"۔۔اس نے حکم دیا۔۔
"نہیں جاؤں گا کیا کرو گے؟"۔۔ وہ ڈٹائی سے بولا۔۔ یقنن اسے اتنی جرت دی گئی تھی جو وہ ایسے بات کرتا تھ۔ا
" میں جو کروں گا نا پھر پچھتاؤ گے تم"۔۔
معاذ نے اسے لفظوں پے زور ڈالے کہا۔
"چلو شاباش ابھی تم ایزل کو چھوڑ آؤ، واپس آؤ یہیں سے کنٹینیو کرتے ہیں"۔۔موئز نے اسے کندھے سے پکڑ کر باہر کی جانب اس کا رخ کیا جیسے راستا دکھا رہا ہو۔۔معاذ نے اسے غصے سے دیکھا۔۔تو موئز نے اسے مسکرا کر دیکھا۔۔معاذ جانتا تھا۔۔وہ ڈیٹ ہے جائے گا ویسے بھی نہیں۔۔اس لیے ایزل کو باہر آنے کا کہہ کر وہ باہر چلا گیا۔۔
"سکون نہیں آتا نہ تمہیں جب تک معاذ سے میری شکایت نا کرو؟"اس نے ایزل کو ٹوکنے والے انداز میں کہا۔۔جو صوفے سے اپنا بیگ اٹھا رہی تھی۔۔
"ہاں نہیں آتا"۔۔وہ کہہ کر باہر کی طرف بڑ گئی۔۔
"نہیں کی بچی تو واپس آ تجھے میں بتاتا ہوں"۔۔وہ دانت پیستہ اوپر کی طرف بڑ گیا۔۔معاذ موئز سے ایک سال بڑا تھا۔۔اس لیے موئز معاذ کی کوئی خاصی عزت نہیں کرتا تھا۔۔یا پھر یہ کہو کے وہ لوگوں کو عزت کم ہی دیتا تھا۔۔ایزل معاذ سے تین سال چھوٹی تھی۔۔اور موئز سے دو سال۔۔معاذ بڑے بھائیوں کی طرح ہمیشہ اس کا خیال رکھتا تھا۔۔جب کے موئز کی اس کے ساتھہ بلکل نہیں بنتی۔۔
☆☆☆☆☆☆
شام کا وقت تھا۔۔۔دن کی روشنی مدھم ہوتی جا رہی تھی۔۔۔اور آسمان پر نارنجی،گلابی اور جامنی رنگوں کا حسین امتزاج بکھرہ ہوا تھا۔۔۔پرندوں کے گول اپنے اپنے گھنسلوں میں جاتے ہوئے دکھائی دے رہے تھے۔۔ان کی چہچہاہٹ ماحول میں ایک خاص قسم کی تازگی بھر رہی تھی۔۔۔سب گارڈن میں بیٹھے چائے پی رہے تھے۔۔۔ماہ نور مری سے صبح کے وقت آگئی تھی اور اب اپنے کمرے میں سو رہی تھی۔۔۔اور ریان بھی لنڈن سے آچکا تھا۔۔۔
"تم اتنے پتلے کیوں ہوگئے ہو؟ صحیح سے کھانا نہیں کھاتے کیا؟"۔۔۔انکے لہجے میں محبت تھی اور گبراہٹ۔۔۔وہ واقعی پہلے سے زیادہ کمزور،سوکا ہوا چہرا،دھنسی ہوئی آنکھیں،وہ اب بھی تھکا تھکا سا لگ رہا تھا۔۔۔پردیس میں کمائی کے خواب اور حقیقت کی کٹھور محنت نے اسے تھکا دیا تھا۔۔۔
"نہیں امی میں بلکل ٹھیک ہوں۔۔۔ بس کام کا دباؤ تھا اس میں مصروف رہتا تھا۔۔۔اور آپ کافی وقت بعد دیکھہ رہی ہیں اس لیے ایسا لگ رہا ہے"۔۔۔اس نے بات کو ٹالنے کی کوشش کی پر اندر سے وہ بکھرا ہوا تھا۔۔
"امید ہے کہ اندازا ہوگیا ہوگا۔۔۔ کہ اپنا گھر چھوڑ کر باہر جاؤ تو ٹھوکر کے سوائے کچھہ نہیں ملتا"۔۔۔پاشا کا لہجا بہت سخت تھا انکی آنکھوں میں نمی تھی۔۔۔انکے اندار دکھہ تھا جو انہیں اپنے بیٹے نے دیا تھا پر پھر بھی اس لمہے انہیں فکر تھی پر وہ اسے کہیں دور چھپائے بیٹھے تھے۔۔۔ریان نے کچھہ نہیں کہا وہ بس شرمندگی سے نظریں جھکائے بیٹھا تھا۔۔۔
"ابھی تو نا کریں ایسی باتیں وہ آج ہی آیا ہے۔۔۔کچھہ وقت گزارنے تو دیں اسے"۔۔۔جویریہ نے التجا کی۔۔اس میں کوئی شک نہ تھا کہ انہیں اپنے بیٹے سے بہت محبت تھی۔۔
"آپ کو کیا لگتا ہے میں اس کا دشمن ہوں میں نہیں چاہتا یہ یہاں رہے؟"۔۔۔ وہ بڑک کر بولے اس بار جویریہ نے کچھہ نہیں کہا تھا۔۔۔"کم از کم اولاد کو احساس ہونا چاہیے والدین انکو پال پوس کہ بڑا کریں اس دن کے لیے کہ وہ ایک دن انہیں چھوڑ کر چلے جائیں"۔۔۔ان کی آواز میں درد تھا آنکھیں نمی سے بھری ہوئی تھی۔۔لان میں اس وقت صرف وہ تینوں بیٹھے ہوئے تھے۔۔
"کیا ہوا ہے؟ "ماہ نور جو لان میں داخل ہوتے ہوئے بولی اور اپنے ابا کے برابر صوفے پے بیٹھہ گئی۔۔۔البتہ جویری ریان کے ساتھہ سامنے والے صوفے پے بیٹھی تھی۔۔۔
"کچھہ نہیں بیٹا جی۔۔۔آپ کا سفر کیسا رہا؟" پاشا نے بات بدل کر پوچھا انکا لہجا محبت سے بھرا ہوا تھا۔۔۔وہ ماہ نور سے ہمیشہ پیار سے بات کرتے تھے کیونکہ اس نے کبھی اپنے ابا کو ناراض نہیں کیا تھا کبھی کوئی ایسی چیز نہیں کی جو انہیں تکلیف دے وہ ہر بار انکی بات مان جایا کرتی تھی۔۔۔
"ٹھیک تھا بلکل"۔۔۔وہ ہلکا مسکرائی۔۔
"اور پڑھائی کیسی جا رہی ہے؟ اور کتنا انتظار کروائیں گی ہمیں کہ آپ کو ڈوکٹر بنتے دیکھیں"!!!پاشا نے ہنستے ہوئے اس کے گرد اپنا بازو پھلایا۔۔
"بس ابا انشاللہ جلدی کچھہ ہی مھینیں ہیں اب تو"۔۔ماہ نور نے پاشا کے سینے پے سر رکھے خوشی سے کہا۔۔
"ریان بھائی آپ کیوں ایسے بیٹھے ہوئے ہیں۔۔بۂی آپکی شادی ہے ایک ہفتے میں اور آپ ایسی شکل بنائے بیٹھے جیسے کوئی زبردستیی کروا رہا ہے"۔۔ماہ نور نے مزاحیہ انداز میں کہا وہ جو سر جکائے بیٹھا تھا۔۔اس کی بات پر با مشکل مسکرایا۔۔"ارے نہیں ایسی بات نہیں بس تھکن کی وجہ سے"۔
"ہاں آپ کا سفر بھی تو لمبا تھا۔۔نا کہاں لنڈن کہاں لاہور"۔۔۔اس نے ہاتھوں کو اونچا کر کے بتایا۔۔
امی مجھے کچھہ چینج لگ رہی ہے اپنے روم کی سیٹینگ!آپ نے چینج کر واہی ہے کیا؟ماہ نور نے کہا۔۔
"مجھے کروانے کی کیا ضرورت ہے اس کے لیے آپ کی بہن کافی ہے"۔۔جویریہ نے بتایا۔۔ریان کی شادی کی تاریخ جیسے ہی پکی ہوئی۔۔زینب نے گھر کی سیٹنگ چینج کروائی تھی۔۔اسے شروع سے ہی آرٹ پے کام کرنا اچھا لگتا تھا۔۔
"مجھے پہلے ہی شک تھا کہ زینب نے ہی کی ہو گا اس کے الاوہ یہ کارنمہ کون سرانجام دے سکتا ہے۔۔اس نے ہنستے ہوئے کہا۔۔
جی بلکل!بلکے پورے گھر کی رینویشن کی ہے۔اس نے دو دن خاص اسی لیے چھوٹی کی تھی کالیج سے۔۔جویریہ نے سرد لہجے میں کہا۔۔
☆☆☆☆☆☆
شام کے چار بج رہے تھے۔۔جویریہ ماہ نور زینب بازار آئی ہوئی تھی۔۔ ریان کی شادی کی شوپنگ کرنے ماہ نور اور زینب ایک دوسرے کا ہاتھہ پکڑے کبھی اس دکان پے جاتی تو کبھی اس پے اور جویریہ ایک ہی دکان سے کچھہ لینے میں مصروف رہتی ماہ نور نے ہمیشہ کی طرح دوپٹہ اسکاف کی شکل میں گلے میں لیا تھا۔۔اور سیمپل سی بالوں میں چوٹی بنی ہوئی تھی۔۔
""امی ایک منٹ میں آئی آپ لوگ جب تک یہ ڈریس لیں۔۔اس نے اپنے ہاتھہ میں پکڑی شوپنگ بیگز زینب کو پکڑائی اور اس دکان سے نکل گئی "شیزا"۔۔سامنے دکان
پے اس کی پرانی اسکول فرینڈ کھڑی تھی اس نے اسے آواز دی ماہ نور کی آواز پر شیزا نے اس کی طرف دیکھا اور ماہ نور اس کی طرف بڑ رہی تھی کے این وقت کوئی سامنے سے آیا جس سے وہ بری طرح ٹکرا گئی۔۔
"اندھے ہیں کیا آپ؟ "ماہ نور نے غصے سے دانت بیج کر اسے دیکھا۔۔تو مقابل نے اپنی نگاھیں سامنے کھڑی لڑکی پر اٹھائی۔۔مھروں چھوٹی آنکھیں۔۔گلابی رنگت سیاہ بال جس کی کچھہ لٹیں ٹکرانے کی وجہ سے اس کے ماتھے پے گر آئی۔۔
"میں اندھا ہوں آپ کی نظر میں آپ کی آنکھیں ہیں"۔۔مقابل بے حد صفائی سے بولا تو ماہ نور ٹھک گئی۔۔
اف کورس!"یہ دو ادد آنکھیں ہی ہیں میری جس سے میں دیکھہ رہی ہوں"۔۔ماہ نور نے لفظوں کو چبا چبا کر کہا۔۔
اووو!"مجھے لگا بٹن ہیں"۔۔اس نے سپاٹ لہجے میں کہا۔۔تو ماہ نور نے حیرت سے اسے دیکھا۔۔
بائے دوے سوری!زید اس پے آخری نگاھہ ڈالتا وہاں سے جا چکا تھا وہ جاتے ہوئے اس کی پشت کو دیکھہ رہی تھی۔۔
"تمھاری عادت نہیں گئی لوگوں سے ٹکرانے کی"۔۔شیزا نے پیچھے سے آتے ساتھہ کہا۔۔تو اس نے ہنس کر اسے دیکھا اور اس سے ملی۔۔دونوں کچھہ دیر باتیں کرتی رہی۔۔اور پھر شیزا چلی گئی انکی شوپنگ ہو چکی تھی اب وہ باہر کی اور نکل رہے تھے۔۔جب وہ اتفاقن کسی سے ٹکرا گئے۔۔
"ارے کیسی ہو جویریہ"۔۔ ایک عورت جو انکے سامنے آکر کھڑی ہوئی۔۔ وہ انکی پرانی دوست تھی کسی محف کے تحت انکی دوستی ٹوٹہ گئی تھی۔۔
"میں ٹھیک تم کیسی ہو سلما"۔۔انہوں نے جوٹھی مسکراہٹ چہرے پے چھوٹی مسکراہٹ کی نمائش کی۔۔
"میں تو بلکل ٹھیک ہو ماہ نور ماشاءاللہ بڑی ہوگئی ہو تم تو اور پہلے سے حسین بھی" ۔۔وہ ماہ نور کے چہرے کو تک رہی تھی۔۔ماہ نور نے کوئی جواب نہیں دیا اور دوسری طرف منہ پھیر لیا۔۔
"آپی اب یہ کیوں یہاں امی کو باتوں میں لگائے کھڑی ہے جب کوئی تعلق ہی نہیں تو باتیں کیسی"۔۔زینب نے سرگوشی نما آواز میں چیڑنے والے انداز میں کہا۔۔
"انکی عادت ہے۔۔ جب بھی شروع ہوتی ہیں نہ جگھہ دیکھتی ہیں نہ وقت"۔۔وہ دونوں بہنیں ایک دوسرے کے کان میں بڑ بڑا رہی تھی
ویسے تم نے ریان کی شادی کر لی"۔سلما نے احتجاجن پوچھا۔۔
"ہاں بس انشاءاللہ کچھہ دنوں میں ہو جائیگی۔۔ اسی کی شادی کی شوپنگ کے لیے آئے ہیں۔۔انہوں نے نورمل انداز میں کہا۔۔
"اچھا!پھر مجھے نہیں بلاؤگی"۔۔وہ سوالیہ نظروں سے جویریہ کو دیکھہ رہی تھی۔۔جویریہ خاموش تھی۔۔اور وہ کہتی بھی کیا۔۔جو کچھہ انہوں نے کیا تھا۔۔ اس کے بعد انکے ساتھہ کوئی تعلق رکھنے کا جواز ہی پیدا نہیں ہوتا۔۔اور وہ جانتی تھی۔۔ کہ پاشا انکی شادی میں شرکت سے سخت خفا ہونگے۔۔ اس لیے اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔۔
"ویسے تو پرانی باتیں دل میں نہیں رکھنی چاہیئے"۔۔۔اس نے ناگواری سے ٹوکتے ہوے کہا۔۔
"آنٹی پرانی باتیں بھول بھی جاؤ۔۔ تب بھی وہ زخم نہیں بھرتے جو کیسی اپنے نے دیے ہو۔۔ آپ کے لیے کہنا آسان ہے ہم نے وہ وقت وہ تکلیفیں فیس کی تھی۔۔ جو آپ لوگوں نے دی تھی۔۔ لیہاذا آپ ہم سے دور رہیں یہی بہتر ہوگا۔۔ آپ کے لیے بھی ہمارے لیے بھی"۔۔ماہ نور ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے بولا اسکی آنکھوں میں نمی تھی۔۔ باتوں سے پرانے زخم تازہ ہو جاتے ہیں۔۔ اور شاید اسے پرانی باتیں یاد آگئی تھی۔۔ جو وہ نہیں کرنا چاہتی تھی ۔۔ وہ کمزور تھی پر وہ لوگوں کے سامنے خود کو مضبوط دکھاتی تھی۔۔اسے اسی چیز میں تو مہارت حاصل تھی۔۔ یہ کہتی وہ زینب اور جویریہ کو لیکر وہاں سے چلی گئی۔۔
☆☆☆☆☆☆
"زوبی"۔۔فائزا نے کمرے میں آتے ساتھہ پکارا۔۔
"زوبی اٹھہ جا"۔۔اب وہ ایسی اوف کر کے پردے سائیڈ پے کرنے لگی۔۔پردے ہٹاتے ہی سورج کی روشنی اس کے چہرے پے پڑی اس نے اپنی آنکھوں کے آگے ہاتھہ رکھا۔۔
"زوبی اٹھہ جا اور شرافت سے ناشتے پے آ"۔۔فائزا نے اس کے اوپر سے کمبل کو کھینچا تو اس نے غصے سے با مشکل آنکھیں کھولے اپنی ماں کو دیکھا۔۔
"جب آپ جانتی ہیں مجھے نہیں کرنا ناشتہ پھر کیوں ہر بار مجھے بلانے آجاتی ہیں"۔۔اس نے بیڈ سے اٹھتے بیگڑے ہوئے نقوش کے ساتھہ کہا۔۔
"تم نے ہمارا بہت صبر آزما لیا اب بس اور نہیں سیدھی ہو کر نیچے آؤ تمھارے ابا پہلے ہی غصے میں ہیں"۔۔فائزا نے کمبل کو سیٹ کر کے ایک سائیڈ پے رکھا اور باہر کی طرف بڑنے لگی۔۔
"وہ کب غصے میں نہیں ہوتے"۔۔وہ کہے بغیر نہ رہ سکی فائزا نے کچھہ نہ کہا اور کمرے سے باہر نکل گئی۔۔
"زوبیا نہیں آئی"۔۔فائزا کے نیچے آتے ہی وقار احمد نے فورن پوچھا۔۔
"آرہی ہے"۔۔نا جانے کیا سوچ کر فائزا نے یہ کہا جب کے اسے خود پتا نہیں تھا کہ وہ آئے گی یا نہیں بس یقین تھا کہ شاید کہیں خیال آجائے اپنی ماں کا جو اسے روز بلانے آتی ہے۔۔
"کہاں جا رہے ہو بچے؟ "۔۔بی جان نے زید سے پوچھا جو جہاز کی مامند اسپیڈ سے سیڑیوں سے اترا اور باہر کی طرف بڑ رہا تھا کہ ان کی بات پر رک گیا۔۔
"ضروری کام ہے دادی"۔۔وہ اب جلدی سے آگے کی طرف بڑ گیا۔۔اس کی جلدی دیکھہ کر انداز ہو رہا تھا کہ اس کو واقعی ضروری کام ہے۔۔بی جان نے بھی زیادہ کچھہ نا کہا۔۔
"آج کے بعد مجھے تم روز اس ٹیبل پے دکھائی دو"۔۔وقار احمد نے زوبیا کو دیکھہ کر کہا جو ابھی اوپر سے آکر چیئر پے بیٹھی تھی۔۔وقار احمد کی بات پر زوبیا نے ایک نظر انہیں دیکھا اور پھر کھانا کھانے لگی۔۔
☆☆☆☆☆☆
آج گھر میں ڈولکی کا فنکشن تھا۔۔پورے گھر میں رونق لگی ہوئی تھی۔۔سب لڑکیاں ساتھہ میں بیٹھی ڈول بجا رہی تھی۔۔چاروں طرف رونک لگی ہوئی تھی۔۔مرد حضرات کی شرکت نہیں تھی کیونکہ یہ لڑکیوں کا فنکشن تھا۔۔ ماہ نور کی دونوں فرینڈز ردا اور زارا بھی اس کے ساتھہ ہی لاہور آئی تھی۔۔نیلے کلر کی ڈریس کھلے براؤن کلر کے بال گوری سفید رنگت آنکھوں میں کاجل حلکا سا میکپ گلے میں وہی سونے کی چین جو اسے پہنی ہوتی تھی۔۔معصوم شفاف چہرہ اس پے مسکراہٹ سجاہے وہ ڈول بجا رہی تھی۔۔
"چل اب ڈول مجھے دے میں نے بجانا ہے"۔۔ردا نے ماہ نور کے ہاتھہ سے ڈول لے لیا تھا اور خود بجانے لگ گئی تھی۔۔
سب لڑکیاں ایسے ئی ساتھہ بیٹھی ہوئی تھی۔۔ کچھہ ڈانس کرتی تو کچھہ گانے گاتی۔۔ اچانک ماہ نور کی نظر دور کھڑی لڑکی پر پڑی۔۔ جو دروازے کی سائیڈ کھڑی ہوئی تھی۔۔وہ تھوڑی چونکہ گئی کہ جب ساری لڑکیاں یہاں بیٹھی ہوئی ہیں تو یہ اکیلی لڑکی دروازے پے کھڑی کیا کر رہی ہے جب کہ اس کے آس پاس کوئی لڑکی نہیں تھی اور وہ بار بار دروازے سے باہر جھانکتی جیسے کیسی کے آنے کا انتظار کر رہی ہو۔۔ ماہ نور دبے پاؤں اس کی طرف آئی وہ لڑکی اسے دیکھہ جیسے گھبرا گئی۔۔
"آپ کون ہیں!؟اور یہاں کیوں کھڑی ہیں؟"۔۔ ماہ نور نے آئبرو اچکائے پوچھا۔۔
میں آئیرا کی فرینڈ ہوں!" میری فرینڈ آرہی ہے۔۔ تو اسکا ویٹ کر رہی ہوں"۔۔ اس کے ماتھے پے بل پڑے تھے۔۔
اچھا!"لیکن ایسے مناسب نہیں لگ رہا نا۔۔ اس طرح دروازے پے کھڑے ہونا۔۔ آپ وہاں بیٹھہ کر اس کا انتظار کر لیں"۔۔ ماہ نور نے سامنے پڑی چیئر پے بیٹھنے کا اشارا کرتے ہوے کہا۔۔ اور وہ لڑکی سر ہلا کر وہاں بیٹھہ چکی تھی۔۔ ماہ نور نے دروازا تھوڑا بند کر دیا تھا جو آدھا کھلا ہوا تھا۔۔ ماہ نور اسے دیکھہ رہی تھی اسے کچھہ بات سمجھہ نہیں آئی آئیرا کی فرینڈ اور پھر وہ بھی اپنی فرینڈ کا انتظار کر رہی۔۔ پہلی بات تو یہ کے آئیرا کی فرینڈ یہاں کیوں آئی ہے۔۔ کیا ہماری رشتیدار ہے۔۔ وہ اسے دیکھہ کے منہ میں بڑبڑا رہی تھی۔۔ جو بھی ہو مجھے کیا۔۔ وہ ایک نظار اسے دیکھہ کے وہاں سے چلی گئی اور واپس اپنی جگا پے آکر بیٹھی۔۔
"لڑکیوں آجاؤں سب کھانا لگ گیا ہے کھا لو"۔۔ ایک عورت آکر بولی جو انکی پڑوسن تھی۔۔
"ہاں یار چلو چلو ویسے بھی مجھے بہت بھوک لگی ہے"۔۔ ردا نے اٹھتے ہوے پرجوشی سے کہا۔۔
"تمہیں کب بھوک نہیں لگتی"۔۔ زارا نے ٹوکنے والے انداز میں کہا۔۔ وہ اپنی ہنسی دبائے ادھر اودھر دیکھہ رہی تھی۔۔ وہ ہمیشہ ردا کو تنگ کرنے کے لیے اس کی ہر بات میں ٹانگ اڑاتی رہتی تھی۔۔
سدھر جاؤ زارا!"کبھی مار پڑے گی مجھہ سے"۔۔ ردا اکھتائی تھی۔۔
"تم دونوں یہاں بھی شروع ہوگئی"۔۔ ماہ نور نے دونوں کو دیکھتے برو اچکاتے ہوے کہا۔۔
"میں نے تو کچھہ نہیں کیا"۔۔ زارا انجان بن رہی تھی۔۔
"ہاں میں نے ہی سب کیا تم تو معصم ہو"۔۔ ردا نے ایک ایک لفظ پے زور ڈالے کہا۔۔
اف!"کوئی ایسی جگا ہوگی جہاں تم دونوں نہیں لڑوگے"۔۔۔ وہ لمبا سانس لے کر بولی۔۔
"ارے لڑ کہاں رہے ہیں یہ تو میرا پیار ہے ردا کہ ساتھہ ہے نہ ردا۔"۔۔وہ اس کے کندھے پے ہاتھہ رکھے ہوئے پوچھہ رہی تھی۔۔
"ہاں جیسے کہ ایسا پیار ہوتا ہے"۔۔ وہ منہ بسورتے بولی۔۔
"ہاں نہ میرا پیار میری طرح یونیک ہے"۔۔۔ زارا ردا کو آنکھہ مارتے ہوے بولی۔۔۔ اچانکہ ردا کا مبائل بجنے لگا۔۔۔ چلو تم لوگ کنٹینیو کرو میں آتی ہوں۔۔۔
"اسلام علیکم کیسی ہیں آنٹی"۔۔۔ زارا پرکشش مسکراہٹ لیے جویریہ سے مل کر بولی وہ ان سے اب مل رہی تھی کیونکہ جب وہ آئے تھے تو وہ مھمانوں کے ساتھہ مصروف تھی تو مل نہیں پائے۔۔۔
"میں ٹھیک ہوں آپ کیسی ہو بیٹا"۔۔۔ وہ پیار سے اس کے گال پے ہاتھہ رکھے بولی۔۔۔
"میں ٹھیک ہوں آنٹی"۔۔۔ اس نے ہلکا مسکرئے کہا۔۔۔
ماشااللہ! بڑی ہوگئی ہو پہلے سے۔۔۔
"جی آنٹی اور ہوشیار بھی"۔۔۔ ردا پیچھے سے آتے ہوئے بولی۔۔۔اب ان کے سامنے کھڑی ہوگئی۔۔۔ جویریہ نے اسکی طرف تھوڑی حیرانی سے دیکھا۔۔۔ جس کے چہرے پے ہلکی مسکراہٹ تھی۔۔۔
امی یہ میری دوست ردا!"جس کا میں ذکر کرتی تھی۔۔۔ ہم ساتھہ ہی ہوتی ہیں"۔۔۔ ماہ نور نے تعارف کروایا۔۔۔وہ جویریہ کے تاثرات سے سمجھہ گئی تھی۔۔۔ کہ وہ سوچ رہی ہوں گی کہ یہ کون ہے۔۔۔البتہ وہ انہیں نہیں جانتی تھی کیونکہ ردا سے ماہ نور یونیورسٹی میں ہی ملی تھی۔۔۔ اور انکی دوستی ہوگئی۔۔۔البتہ زارا بچپن سے ان کے گھر آیا جایا کرتی تھی تو وہ اسے جانتی تھی۔۔
اوو اچھا!"ماشااللہ بہت پیاری ہے ردا تو"۔۔۔ اب کی بار ان کے چہرے پے مسکراہٹ ابھر آئی تھی۔۔۔
اللہ شکر ہے!۔۔۔"کسی نے پیارا تو کہا۔۔۔ ورنہ یہ لوگ مجھے سب کچھہ کہتے ہیں سوائے پیارے کے"۔۔۔ردا نے ان دونوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔۔۔
"پیارے انسان کو پیارہ کہا جاتا ہے تمہیں نہیں"۔۔۔ زارا شرارت سے بولی۔۔۔
"دیکھہ لیں آنٹی"۔۔۔اب کی بار اس نے زارا کی طرف اشارہ کیا جو منہ پے ہاتھہ دیے ہنس رہی تھی۔۔۔
"ارے کیوں اتنی پیاری تو ہے میری بچی"۔۔۔ جویریہ نے پیار سے اس کے ماتھے کو چوما۔۔ ردا حیرانی سے انہیں دیکھہ رہی تھی۔۔۔ اس کی آنکھوں میں سرخی چھائی۔۔اچانک چہرے کے تاثرات بدلے۔۔۔اسے یہ سب جیسے خواب لگ رہا تھا۔۔۔ ماہ نور اور زارا ایک دوسرے کو دیکھہ رہی تھی وہ سمجھہ گئی تھی۔۔۔ کہ ردا کا رد عمل ایسا کیوں ہے۔۔۔
ارے کیا ہوا!۔۔۔ جویریہ نے اس کے چہرے پے پیار سے ہاتھہ رکھا۔۔۔
"کچھہ۔۔۔ ن۔۔۔ ہیں"۔۔۔ اس کے الفاظ ٹوٹے۔۔۔ اب کی بار اس کا آنسوں گال پے آ گرا۔۔۔ اس نے یک دم اپنا چہرا پھیرا۔۔ اور وہاں سے چلی گئی۔۔۔
"ردا"۔۔۔ ماہ نور نے اسے پیچھے سے آواز دی۔۔۔"میں دیکھتی ہوں"۔۔۔ زارا بھی اس کے پیچھے چلی گئی۔۔۔
"کیا ہوا تھا اسے یک دم"۔۔۔ جویریہ نے ماہ نور سے پوچھا۔۔۔وہ اسے ایسے روتے دیکھہ کچھہ پریشان ہوگئی تھی۔۔۔
"اپنی ماما کی یاد آگئی ہوگی"۔۔۔ماہ نور نے گہرا سانس لے کر اطلاعن بتایا۔۔۔اس کی نظریں ابھی بھی وہیں تھی جہاں سے ردا گزار کے چلی گئی۔۔۔
اسکی ماما نہیں ہے کیا!؟جویریہ نے حیرانی سے پوچھا۔۔۔
"ارے نہیں امی اس کی ماما ہے۔۔۔بس وہ نہیں گئی نا گھر تو۔۔۔اس وجہ سے۔۔۔میں آتی ہوں اسے دیکھہ کر"۔۔۔ماہ نور چلی گئی تھی۔۔۔کیونکہ اسے پتا تھا۔۔۔ کہ اگر وہ رکی تو۔۔۔ اسکی امی اس سے پوچھے گی۔۔۔اور وہ نہیں چاہتی تھی۔۔۔ کہ وہ اس بارے میں کسی کو بتائے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات کا وقت تھا۔۔۔ ہر کوئی اپنے کمرے میں تھا پاشا باہر لان میں بیٹھے بک پڑھہ رہے تھے۔۔جب جویریہ انکے سامنے صوفے پے آکر بیٹھی۔۔
مجھے کچھہ بتانا تھا آپ کو!۔۔جویریہ نے کچھہ سوچتے ہوئے کہا۔۔
"ضرور کہیے"،انکی نظریں ابھی بھی بک پر ہی تھی۔۔
"اس دن بازار میں ہمیں سلما ملی تھی۔۔ پوچھہ رہی تھی۔۔ کہ کس کی شوپنگ کے لیے آنا ہوا۔۔ تو میں نے بتایا تھا کے ریان کی شادی ہے۔۔وہ کہہ رہی تھی کے مجھے نہیں بلائیں گے"۔۔پاشا نے جویریہ کو ایک نظر دیکھا۔۔ اور پھر اپنی عینک اتارے بک کے ساتھہ سائیڈ پے رکھی۔۔ اور جویریہ سے مخاتب ہو کر بولا۔۔۔
"آپ جانتی ہیں۔۔۔جویریہ بیگم کے انکی وجہ سے ہم نے کیا کچھہ سہا ہے۔۔۔ماہ نور کے لیے کتنا مشکل وقت تھا۔۔۔ انہیں ہمارا ذرا سا بھی خیال نہیں آیا تھا۔۔۔کے انکے اچانک مکر جانے سے ہم پر کیا گزرے گی۔۔۔ان سب کے بعد ہمارا ان سے کوئی رشتا رکھنا بنتا ہے"۔۔۔پاشا صاحب تھوڑا سخت انداز میں بولے۔۔۔
"بلکل آپ صحیح کہہ رہے ہیں۔۔۔ وہ وقت کبھی نہیں بلایا جا سکتا۔۔۔پر کیا پتا وہ بدل گئی ہو۔۔انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوگیا ہو"۔۔۔جویریہ نے اعتماد بھرے انداز میں کہا۔۔۔۔۔۔
"نہیں جویریہ بیگم لوگ کبھی نہیں بدلتے بس انکے حالات بدل جاتے ہیں۔۔اور اب انکے حالات میں تبدیلی آئی ہوگی۔۔اور جب ایسا ہوتا ہے۔۔۔تو انہیں آپ یاد آتی ہیں۔۔۔اور تو آپکی دوست رہہ چکی ہیں وہ۔۔۔ آپ مجھہ سے بہتر جانتی ہیں انہیں"۔۔۔پاشا نے سنجیدگی سے اپنی بات مکمل کی۔۔۔
اور پھر لوگ وہ کہاں ہوتے ہیں
جو ہونے کا وہ دکھاوا کرتے ہیں
سلما جویریہ کی بہت اچھی دوست تھی۔۔۔ان کا ایک دوسرے کے گھر آنا جانا لگا رہتا تھا۔۔۔سلما کا ایک اکلوتا بیٹا تھا جس کا نام کامل تھا ۔۔جس کے لیے انہوں نے ماہ نور کا انتخاب کیا تھا۔۔۔ماہ نور نے بھی انکار نہیں کیا تھا۔۔۔ کیونکہ اس کے والدین کا فیصلا تھا۔۔۔اور وہ انکے فیصلے کے خلاف نہیں جانا چاہتی تھی۔۔۔پھر آہستہ آستہ ماہ نور کو بھی کامل اچھا لگنے لگا تھا۔۔ شادی کے فنکشنس شروع ہوگئے تھے۔۔۔سب گھر والے بہت خوش تھے۔۔۔"اور پھر خوشیاں کب زیادہ وقت تک رہتی ہیں"۔۔۔ماہ نور دلحن بنی بیٹھی تھی۔۔۔ پر کامل نہیں آیا تھا۔۔۔ٹوٹ گیا دل،عتبار،امیدیں سب کچھہ ایک پل میں بدل گیا۔۔۔ جب کوئی چھوڑ جائے۔۔۔ تو تکلیف ہوتی ہے۔۔۔ اور جب کوئی بغیر بتائے ۔۔۔بغیر ریضن کے چھوڑ جائے۔۔۔ تو بہت زیادہ تکلیف ہوتی ہےاور پھر کیا گزرتی ہے ان والدین پر جہاں بیٹی دلحن بنی بیٹھی ہو اور دلحا بارات لیکے نہ آئے۔۔۔ماہ نور کو کبھی کوئی اچھا نہیں لگا تھا "پر کامل اسے اچھا لگنے لگا تھا۔۔۔ اور پھر اچھے لگنے کی۔۔۔ اس نے بہت بڑی قیمت چکائی تھی۔۔۔اور پھر کچھہ وقت بعد ماہ نور نے خود کو سنبھال لیا تھا۔۔۔ انسان کو تب تک زندگی کی حقیقت کا پتا نہیں چلتا۔۔۔جب تک وہ دوکا نہیں کھاتا۔۔۔
☆☆☆☆☆☆
