Cherreads

Chapter 5 - UFAQ_CHAPTER:5

کمرے میں صرف ایک گھڑی کی ٹک ٹک سنائی دے رہی تھی۔

مہَر کی انگلیاں ابھی تک اس فائل پر کانپ رہی تھیں

جو اس کے لیپ ٹاپ کی اسکرین پر کھلی تھی۔

افق سامنے والی کرسی پر بیٹھی تھی۔

بلکل ساکت۔

بلکل خاموش۔

نہ سوال…

نہ انکار…

نہ چیخ۔

صرف وہی خالی نظر…

جو اس رات کے سائے جیسی تھی۔

"تم جانتی تھیں؟"

مہَر کی آواز ٹوٹی ہوئی تھی۔

افق نے آہستہ سانس باہر نکالی۔

"نہیں…"

"لیکن میں ہمیشہ محسوس کرتی تھی

کہ میرے اندر کچھ ایسا ہے

جو میری مرضی سے نہیں بنا…"

کمرے میں دوبارہ خاموشی پھیل گئی۔

مہَر نے لپ ٹاپ بند کر دیا

جیسے وہ اس راز کو آنکھوں سے بھی دور کرنا چاہتی ہو۔

لكن یہی مسئلہ تھا…

یہ راز اب افق کا نہیں رہا تھا۔

⚡ تب دروازہ بجا۔

ایک بار۔

پھر خاموشی۔

پھر…

دوسری بار۔

نہ بہت زور سے،

نہ بہت دھیمے۔

جیسے دروازے کے اُس پار کھڑا شخص

جانتا ہو کہ اسے انتظار کی ضرورت نہیں۔

افق نے دروازے کی طرف دیکھا۔

نہ حیرت،

نہ خوف۔

بس پُرانی سی تھکن۔

"کون ہے؟"

مہَر نے آہستہ پوچھا۔

افق کھڑی ہوئی۔

ہر قدم میں خاموش طاقت تھی۔

جیسے وہ اب زندگی سے نہیں

خود سے بات کر رہی ہو۔

وہ دروازے تک پہنچی

اور بغیر کچھ کہے

اسے کھول دیا۔

وہاں ایان کھڑا تھا۔

نہ شرمندگی،

نہ غرور۔

بس ایک تھکا ہوا چہرہ

اور آنکھوں میں عجیب سی سنجیدگی۔

وہ اندر نہیں آیا۔

بس دروازے پر ہی ٹھہرا رہا۔

"مجھے معلوم تھا…

تمہیں آخرکار سب پتہ چل ہی جائے گا۔"

افق نے اس کی آنکھوں میں دیکھا۔

وہ آنکھیں جو کبھی اس کی ٹیم کا حصہ تھیں

اب ایک بوجھ لگ رہی تھیں۔

"مجھے تمہارا جھوٹ نہیں دکھا۔

مجھے وجہ بتاؤ۔"

افق کی آواز پرسکون تھی…

لیکن اندر سے سخت۔

ایان نے نظریں جھکا لیں۔

"میں تمہیں بچانا چاہتا تھا…"

مہَر ہنس پڑی۔

مگر وہ ہنسی خالی تھی۔

"یہ بچانا تھا؟

یا اپنا خاندان بچانا تھا؟"

ایان خاموش ہو گیا۔

کچھ لمحے بعد بولا:

"شروع میں…

خاندان کے لیے تھا۔

لیکن بعد میں…

تم دونوں کے لیے بھی ہو گیا تھا۔"

افق کا چہرہ نہیں بدلا۔

نہ نفرت،

نہ نرمی۔

بس ایک فیصلہ۔

"تم نے میرا ماضی چھپایا،

تمہارا جرم یہی تھا۔

تم نے میرا مستقبل خراب نہیں ہونے دیا—

یہ تمہارا واحد دفاع ہے۔"

مہَر چونک گئی۔

"افق؟! تم… اسے چھوڑ رہی ہو؟"

افق نے مہر کی طرف دیکھا۔

اور یہی وہ لمحہ تھا…

جہاں مہر کو پہلی بار

افق سے ڈر لگا۔

اس کی آنکھوں میں

کوئی جذبات نہیں تھے۔

صرف حساب۔

"نہیں مہر…"

افق نے آہستہ کہا

"میں کسی کو نہیں چھوڑتی۔

میں صرف…

اپنی شرائط طے کرتی ہوں۔"

ایان نے سر اٹھایا۔

"کیسی شرائط؟"

افق چند لمحے خاموش رہی

پھر بولی:

"اگر تم واقعی

میرے اور اس کی غلطیوں کی تلافی چاہتے ہو…"

اس نے انگلی سے اپنی کنپٹی کی طرف اشارہ کیا۔

"تو تم مجھے اس کے تمام data دو گے۔

تجربوں کی ساری فائلز۔

ہر وہ شخص،

ہر وہ جگہ

جہاں اس نے ایسا کیا ہو۔"

کمرے میں ہوا رک گئی۔

مہَر کا دل زور سے دھڑکا۔

"افق… تم بدلہ لینا چاہتی ہو؟"

افق نے نظریں جھکائیں۔

پھر آہستہ مسکرائی۔

مگر وہ مسکراہٹ گرم نہیں تھی…

وہ خطرناک حد تک ٹھنڈی تھی۔

"نہیں مہر…"

"میں بدلہ نہیں لیتی…"

"میں اختتام لکھتی ہوں۔"

اور اسی لمحے…

افق کا موبائل ہلکا سا وائبریٹ ہوا۔

ایک نمبر…

جو اس نے کبھی save نہیں کیا تھا۔

صرف ایک لائن:

"کچھ یادیں مر کر بھی مرنے نہیں دیتیں۔

تم نے مجھے تو پہچان لیا…

میں اب بھی باقی ہوں۔"

افق نے اسکرین بند کر دی۔

مہَر نے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔

"کون تھا؟"

افق نے ونڈو کی طرف دیکھا…

جہاں رات اب بھی پھیلی ہوئی تھی۔

اور آہستہ بولی:

"سایہ…"

"اب وہ صرف یاد نہیں رہا…"

"اب وہ واپس آ رہا ہے۔"

>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>

رات سرد تھی، اور شہر کی بتیاں دھند میں گم ہو رہی تھیں۔

افق کی گاڑی کمپنی کے خالی پارکنگ ایریا سے نکل چکی تھی۔ شیشے سیاہ تھے، اندر نہ روشنی، نہ آواز۔

مہَر خاموش تھی۔

لیکن اس کے ہاتھ میں جو فلیش ڈرائیو تھی… وہ خاموش نہیں تھی۔

یہی تھا وہ راز۔

علی کے بعد جب وہ سرور روم میں واپس گئی، تو اس نے صرف بیک اپ نہیں بنایا…

بلکہ افق کے "Hidden Network" کا پورا ایک دروازہ کھول دیا۔

یہ عام ڈیٹا نہیں تھا۔

وہ ڈیٹا تھا:

غیر قانونی فنڈز کی منتقلی کا

جعلی کمپنیوں کے نام پر بلیک منی وائٹ کرنے کا

سیاستدانوں، میڈیا مالکان اور پولیس آفیسرز کو خریدنے کا

اور ان لوگوں کی فہرست… جو افق کے سسٹم سے ٹکرائے اور پھر خاموش ہو گئے۔

لیکن سب سے خوفناک چیز کچھ اور تھی…

فائل کے آخر میں ایک خفیہ پروجیکٹ تھا:

Project BLACK VEIL

اس پروجیکٹ کے اندر:

کچھ "لوگ" نہیں…

کچھ "زندہ مہرے" تھے۔

وہ لڑکیاں…

جنہیں غریب علاقوں سے چُنا گیا،

تعلیم، کیریئر، سفری سہولتوں کا لالچ دیا گیا…

اور پھر آہستہ آہستہ انہیں پاور کے کھیل میں مہرہ بنا دیا گیا۔

ان میں سے کئی غائب ہو چکی تھیں۔

کئی اب دوسرے ملکوں میں کسی اور نام سے زندہ تھیں۔

اور کچھ افق کے لیے کام کرتے ہوئے… خود افق بننے کی کوشش کر رہی تھیں۔

اور ان سب کی فائل پر ایک ہی لوگو تھا:

Afaq Industries – Empowering Women.

مہَر کے ہاتھ کانپ گئے…

اسے سمجھ آ گئی تھی:

افق صرف کاروباری انسان نہیں…

وہ ایک پورا نظام ہے۔

ایک مکمل مافیا نظام۔

گاڑی اچانک رکی۔

افق نے پہلی بار پیچھے مڑ کر اس کی طرف دیکھا۔

کوئی غصہ نہیں تھا۔

کوئی چیخ نہیں۔

بس ایک خطرناک سکون۔

وہ مسکرایا… بہت ہلکی سی مسکراہٹ:

"تم نے وہ دیکھ لیا، ہے نا جسے کوئی صدیوں سے نہیں دیکھ سکا؟"

مہَر نے جواب نہیں دیا۔

وہ آگے جھکا، اور آہستہ سے بولا:

"اب تم دو راستوں پر ہو، مہَر…

یا میرے ساتھ یہ جہنم چلو،

یا اس کی پہلی لاش بن جاؤ۔"

اور وہ لمحہ… پہلی بار

مہَر کو افق سے ڈر لگا۔

حقیقی ڈر۔

وہ ڈر جو هڈیوں میں اتر جاتا ہے۔

لیکن کہانی یہاں ختم نہیں…

مہَر نے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر فلیش ڈرائیو مضبوط پکڑی اور کہا:

"میں تمہاری لاش نہیں بنوں گی، افق…

میں تمہاری سب سے بڑی غلطی بنوں گی۔"

اور افق ہنس پڑا…

اس بار کھل کر۔

"میں نے بھی یہی تم سے چاہا تھا…"

????????????????????…

رات اب بھی وہی تھی۔

شہر کی سڑکیں خاموش… مگر گاڑی کے اندر طوفان زندہ تھا۔

افق نے گاڑی روکی نہیں تھی…

وہ صرف رفتار کم کر رہی تھی۔

کیونکہ اب وہ بھاگ نہیں رہی تھی…

اب وہ سوچ رہی تھی۔

مہَر نے آہستہ سے فلیش ڈرائیو ڈیش بورڈ پر رکھ دی۔

"میں تمہاری دشمن نہیں ہوں، افق…"

اس کی آواز میں کپکپاہٹ نہیں تھی، صرف سچ تھا۔

"میں تمہاری ساتھی ہوں۔ اور دوستوں سے سچ چھپایا نہیں جاتا…"

افق نے اسے دیکھا۔

پہلی بار اس کی نظروں میں غرور نہیں تھا،

بلکہ ایک تھکن…

ایک بوجھ…

ایک تنہائی۔

"تمہیں پتہ ہے مہَر…"

افق نے آہستہ کہا

"یہ سب بننے کا شوق نہیں تھا مجھے…

یہ سب بننے پر مجبور کیا گیا تھا۔"

خاموشی چھا گئی۔

"Project BLACK VEIL کسی لڑکیوں کو مہرہ بنانے کا منصوبہ نہیں تھا…"

افق نے لمبی سانس لی۔

"یہ ان لڑکیوں کو بچانے کی کوشش تھی…

جنہیں دنیا پہلے ہی مہرہ بنا چکی تھی۔"

مہَر چونک گئی۔

افق نے بات جاری رکھی:

"جن سیاستدانوں، بزنس مینوں اور مافیا نیٹ ورک نے انہیں استعمال کیا…

یہ پروجیکٹ ان سے طاقت واپس لینے کے لیے تھا۔

لیکن یہ کھیل اتنا گندا تھا…

کہ مجھے خود بھی اس کا حصہ بننا پڑا۔

ورنہ یہ منصوبہ کبھی زندہ نہ رہتا۔"

مہَر نے آہستہ سے پوچھا:

"اور وہ لڑکیاں جو غائب ہو گئیں؟"

افق نے شیشے سے باہر دیکھا۔

"وہ غائب نہیں ہوئیں، مہَر…

وہ آزاد ہو گئیں।

نئے ملکوں میں… نئے ناموں کے ساتھ… نئی زندگیاں…"

اور پھر… وہ لمحہ

مہَر کے چہرے پر ایک عجیب سی مسکراہٹ آئی۔

"پھر تمہیں مجھے ڈرانے کی ضرورت نہیں تھی…"

افق نے اس کی طرف دیکھا،

اور ہلکا سا مسکرا دی۔

"نہیں…

مجھے تمہیں آزمانا تھا۔"

مہَر ہنس ہنس کر سر جھکا گئی:

"اور تم خود کہتی ہو ہم دوست ہیں؟ دوست ڈراتے ہیں ایسے؟"

افق نے کندھے اچکائے:

"دوست… وہی ڈراتے ہیں جنہیں تم کھونے سے ڈرتے ہو۔"

اور وہ دونوں ہنس پڑیں۔

پہلی بار…

سچی ہنسی۔

>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>

اسٹیو کے تیز سفید لائٹس،

کیمروں کی جھلملاہٹ،

اور سامنے سینکڑوں آنکھیں…

لیکن افق کی آنکھوں میں کوئی خوف نہیں تھا۔

وہ سادہ سفید لباس میں تھی، مگر اس کی موجودگی پوری اسکرین پر چھا گئی تھی۔

مہَر اس کے ساتھ بیٹھی تھی — خاموش، مگر مضبوط۔

اینکر نے سوال کیا:

"افق، لوگ کہتے ہیں آپ کی کمپنی صرف بزنس نہیں، ایک طاقت ہے… حقیقت کیا ہے؟"

افق نے کیمرے کی طرف دیکھا۔

"طاقت صرف پیسے میں نہیں ہوتی…"

اس کی آواز میں سکون تھا،

"طاقت اس میں ہوتی ہے کہ آپ کتنی لڑکیوں کو یہ احساس دلاتے ہیں

کہ وہ اکیلی نہیں ہیں۔"

وہاں ایک لمحے کو خاموشی چھا گئی۔

پھر اس نے مہَر کا ہاتھ پکڑ لیا۔

"ہم صرف برانڈ نہیں بنا رہے،

ہم ایک محفوظ جگہ بنا رہے ہیں…

جہاں لڑکیاں سیکھیں گی، کمانے کے ساتھ خود پر یقین بھی سیکھیں گی۔"

مہَر نے ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ کہا:

"ہم چاہتے ہیں کہ کل کسی لڑکی کو یہ نہ کہنا پڑے:

میرے پاس کوئی سہارا نہیں تھا…

کیونکہ اب، وہ سہارا ہم بننا چاہتے ہیں۔"

پورے اسٹوڈیو میں خاموشی چھا گئی…

اور پھر تالیاں۔

لیکن…

جیسے ہی وہ اسٹوڈیو سے باہر آئیں

مہَر کا فون کمپنا شروع ہو گیا۔

اسکرین پر صرف ایک میسج:

"تم دونوں غلط کھیل کھیل رہی ہو…

ہم خاموش نہیں رہیں گے۔"

مہَر نے افق کی طرف دیکھا۔

افق نے مسکرا کر فون سائیڈ پر رکھا۔

"ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے مہَر…"

"جب لوگ دھمکیاں دینے لگیں…

تو مطلب تم صحیح راستے پر جا رہے ہوتے ہو۔"

مہَر نے گہرا سانس لیا:

"اور پھر؟"

افق نے آسمان کی طرف دیکھا۔

"پھر ہم اور مضبوط کھڑے ہوتے ہیں۔"

لیکن…

رات کو جب وہ آفس پہنچیں،

سٹاف جا چکا تھا

عمارت خاموش تھی۔

اچانک بجلی چلی گئی۔

مکمل اندھیرا۔

صرف ایمرجنسی لائٹ کی مدھم روشنی…

اور دروازے پر کسی کے قدموں کی آواز۔

مہَر نے آہستہ سے کہا:

"افق…"

افق نے اس کی طرف دیکھا…

اور سر ہلایا۔

"ڈرنا نہیں…"

"جو بھی ہوگا… ہم دونوں کے ساتھ ہوگا۔"

>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>

دفتر میں اندھیرا تھا۔

صرف ایمرجنسی لائٹ کی مدھم سی سرخ روشنی۔

دیواروں پر لمبے سائے اور ہوا میں ایک انجانی سی گھبراہٹ۔

دروازہ آہستہ آہستہ کھلا…

ایک لڑکی اندر داخل ہوئی۔

نقاب میں۔

کانپتی ہوئی۔

سانس بے ترتیب۔

مہَر نے فوراً اس کی طرف قدم بڑھایا

لیکن افق نے ہاتھ کے اشارے سے روکا۔

"نام؟"

افق کی آواز آہستہ تھی… مگر اس میں بوجھ تھا۔

لڑکی کی آواز کانپی:

"حنا…"

"کیوں آئی ہو؟"

حنا کی نظریں جھکی ہوئی تھیں:

"کیونکہ آپ کے علاوہ…

اب میرے پاس کوئی جگہ نہیں بچی…"

مہَر کے دل میں درد سا جاگا:

"کیا ہوا ہے تمہارے ساتھ؟"

حنا نے نقاب ہٹایا۔

اس کے چہرے پر ہلکے زخم…

اور آنکھوں میں خوف۔

"مجھے اس کمپنی کے خِلَاف جھوٹی ویڈیو بنانے پر مجبور کیا جا رہا تھا…"

"اگر میں انکار کرتی، تو وہ لوگ میری عزت بازار میں اچھال دیتے…"

افق کا چہرہ لمحے بھر کو ساکت ہو گیا۔

اس کی آنکھوں کی روشنی بدل گئی۔

وہ جو اب تک نرم، پرسکون اور برداشت کرنے والی تھی…

اب اس میں ایک اور رنگ نظر آ رہا تھا۔

ایک سرد… خاموش… گہری سنجیدگی۔

افق کی ڈارک سائیڈ — مگر انصاف کے ساتھ

مہَر نے اس کا ہاتھ دبایا:

"افق… ہم پولیس سے بات کر لیں گے نا؟"

افق نے جواب نہیں دیا۔

بس نظریں زمین پر جمائے رکھی۔

پھر آہستہ سے بولی:

"مہَر… میں بدلہ نہیں لوں گی۔

میں انہیں توڑوں گی نہیں…

میں انہیں ایک آئینہ دکھاؤں گی جس میں وہ اپنا اصل چہرہ دیکھ لیں گے۔"

مہَر چونک گئی:

"مطلب؟"

افق نے کمپیوٹر آن کیا۔

اپنا پاس ورڈ ڈالا۔

اسکرین پر ایک فائل کھلی:

"Project Hifazat"

افق نے گہری سانس لی:

"یہ لوگ میڈیا کو ہتھیار بناتے ہیں…

ہم اسے سچائی کی ڈھال بنائیں گے۔"

اگلا قدم

افق نے حنا سے کہا:

"ڈرنے کی ضرورت نہیں…

آج سے تم ہمارے پروٹیکشن پروگرام کا حصہ ہو۔"

حنا کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔

مہَر نے اس کا کندھا تھاما:

"اب تم اکیلی نہیں ہو…"

اور پھر…

افق نے ایک ای میل سینڈ کی۔

موضوع:

"سچ جلد سامنے آنے والا ہے"

ریسیور:

نام اب بھی چھپا ہوا تھا۔

لیکن اس کے نیچے بس ایک دستخط تھا:

— اُفق

>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>

دفتر کی کھڑکیوں پر بارش ٹپک رہی تھی۔

روشنیوں کا عکس گیلے شیشوں پر پھیل رہا تھا،

جیسے شہر بھی کسی راز پر خاموشی سے آنسو بہا رہا ہو۔

افق ابھی بھی اسکرین کو دیکھ رہی تھی۔

ای میل جا چکی تھی۔

الفاظ نہیں…

پیغام گیا تھا۔

مہَر نے آہستہ سے کہا:

"وہ لوگ اب خاموش نہیں بیٹھیں گے۔"

افق کی آنکھوں میں ہلکی سی چمک آئی:

"میں بھی اب خاموش نہیں رہوں گی۔"

یہ وہ جملہ تھا

جو اس نے پچھلے پانچ سال میں کبھی زور سے نہیں کہا تھا۔

اگلے دن۔

ہر نیوز چینل۔

ہر پلیٹ فارم۔

ہر اسکرین۔

ایک ہی خبر:

"UFAQ Enterprises Launches PROJECT HIFAZAT"

مہَر نے مائیک تھاما۔

لیکن افق ایک قدم پیچھے کھڑی تھی۔

کیمرے اس پر فوکس کیے ہوئے تھے۔

انٹرویور نے پوچھا:

"افق صاحبہ، آپ کے خلاف مسلسل پراپیگنڈا ہو رہا ہے۔

آپ کیوں خاموش تھیں؟"

افق نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا:

"خاموشی کمزوری نہیں ہوتی۔

کبھی کبھی وہ حکمت ہوتی ہے…"

سارا میڈیا ساکت۔

"اور جب سچ بولنے کا وقت آتا ہے…

تو آواز نہیں…

نظام بدلتا ہے۔"

مہَر نے مائیک پکڑا:

"یہ کمپنی صرف بزنس نہیں ہے۔

یہ اُن لڑکیوں کے لیے ایک امید ہے

جنہیں دبایا جاتا ہے،

خاموش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

اور بدنام کیا جاتا ہے صرف اس لیے

کہ وہ مضبوط بننا چاہتی ہیں۔"

وہ لمحہ…

صرف انٹرویو نہیں تھا…

وہ جنگ کا اعلان تھا

اور پھر… ایک پیغام

اسی شام…

افق کے فون کی اسکرین روشن ہوئی۔

Unknown Number

"Project Hifazat تمہارے لیے خطرناک ثابت ہوگا، افق۔

تمہیں نہیں پتا

تم کس سے ٹکرا رہی ہو…"

مہَر نے میسج دیکھا۔

گھبرا گئی۔

"یہ وہی ہیں…"

"جو پانچ سال پہلے بھی…"

افق نے فون سائیڈ پر رکھا۔

اس کے چہرے پر خوف نہیں تھا۔

صرف ایک گہری سوچ۔

پھر بولی:

"وہ مجھ سے نہیں ٹکرا رہے۔

وہ اس سسٹم سے ٹکرا رہے ہیں…

جو ہم نے بنایا ہے۔"

اور ایک سوال…

مہَر نے آہستہ سے پوچھا:

"افق…

اگر یہ جنگ بہت آگے چلی گئی تو؟"

افق نے اس کی طرف دیکھا۔

اور کوئی سخت مسکراہٹ نہیں۔

صرف ایک تھکی ہوئی… مگر مضبوط لڑکی:

"تو میں تمہیں خود سے کبھی الگ نہیں ہونے دوں گی۔

کیونکہ طاقت

اکیلے میں نہیں

ساتھ میں ہوتی ہے۔"

مہَر کی آنکھیں نم ہو گئیں۔

>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>

وہ سرد سی شام تھی…

جب بھوک صرف پیٹ میں نہیں

روح میں بھی اتر چکی تھی۔

کرایے کے اس چھوٹے سے کمرے میں

دیواریں بھی خاموش تھیں

جیسے وہ بھی شرمندہ ہوں

کہ دو کمزور سی لڑکیوں کو

اتنی بڑی دنیا کے سامنے

اکیلا چھوڑ دیا گیا ہے۔

افق زمین پر بیٹھی تھی۔

دیوار سے ٹیک لگائے۔

ہاتھ میں ایک سوکھی سی روٹی

جس کا آدھا حصہ بھی

پورا نہیں تھا۔

سامنے مہَر بیٹھی تھی…

خاموش…

آنکھیں نیچے…

جیسے خود سے ہی نظریں چرا رہی ہو۔

افق نے روٹی کو دو حصوں میں توڑا…

اور اپنا حصہ

آہستگی سے

مہَر کے سامنے رکھ دیا۔

مہَر کی آنکھوں میں نمی آ گئی۔

"افق… تو نے کچھ نہیں کھایا…"

آواز بھری ہوئی تھی۔

افق نے بغیر دیکھے کہا:

"مجھے بھوک نہیں لگتی جب تو بھوکی ہو۔"

مہَر نے دیکھا

تو اس کے سامنے ایک لڑکی نہیں تھی…

ایک دیوار تھی۔

ایک سایہ بھی

ایک سپاہی بھی۔

جو خود ٹوٹ چکی تھی

مگر کسی کو

ٹوٹنے نہیں دیتی تھی۔

مہَر کا ٹوٹنا اور افق کا چننا

مہَر کو جب اس کی خالہ نے

دروازے سے باہر نکالا تھا

تو صرف اس کا سامان نہیں

اس کا حوصلہ، اس کا مان،

سب سڑک پر پھینک دیا گیا تھا۔

اور اسی دن…

افق نے اسے ہاتھ پکڑ کر کہا تھا:

"آج سے تو اکیلی نہیں ہے۔

اور جب تک میں سانس لوں گی…

تو بھی نہیں ہو گی۔"

حالانکہ اس دن

افق خود بھی

اپنی ماں کے چھوڑنے کا دکھ

ابھی تک سینے میں دفن کیے بیٹھی تھی۔

اپنی بہن کی غیر موجودگی

ابھی تک آنکھوں میں چبھ رہی تھی۔

مگر

اس نے پھر بھی

مہَر کو تھاما۔

آج جب بورڈ روم میں

افق کا نام گونجتا ہے…

جب لوگ کانپتے ہیں

اس کے فیصلے سے…

تو انہیں کیا پتا

یہ وہی لڑکی ہے

جو کبھی آدھی روٹی کو

پورا جہان سمجھتی تھی۔

اب وہ غصیلی ہے۔

سخت ہے۔

تیز دماغ ہے۔

حد سے زیادہ خطرناک

جب کوئی اس کے یا مہَر کے نزدیک آئے۔

کیونکہ دنیا نے اسے سکھایا ہے:

نرمی کمزوری سمجھی جاتی ہے۔

اور افق

کمزور ہونا

اب بھول چکی ہے۔

مہَر آج بھی

پہلے جیسی خاموش ہے۔

فرق صرف یہ ہے

اب وہ کمزور نہیں۔

اب اس کی خاموشی میں وزن ہے۔

سمجھ ہے۔

طاقت ہے۔

وہ جانتی ہے

افق کا غصہ کیوں ہے…

کیوں وہ جلدی بھڑک جاتی ہے…

کیوں وہ کسی پر اعتبار نہیں کرتی…

اس لیے جب بھی

افق حد سے آگے جانے لگتی ہے…

مہَر اس کا ہاتھ تھام لیتی ہے۔

آہستہ…

بغیر کسی شور کے۔

"افق… بس…

دنیا کو تو ہرا سکتے ہیں

خود کو مت ہارنا…"

اور افق،

جو سب سے لڑ جاتی ہے…

مہَر کے سامنے

خاموش ہو جاتی ہے۔

کبھی کبھی

رات کے درمیان…

جب آفس بند ہو چکا ہوتا ہے

اور شہر سو رہا ہوتا ہے…

افق کھڑکی کے پاس کھڑی ہو کر کہتی ہے:

"مجھے ڈر نہیں لگتا کسی دشمن سے…

مجھے صرف یہ ڈر ہے

کہ کہیں تجھے دوبارہ

کوئی توڑ نہ دے…"

مہَر بس مسکرا دیتی ہے۔

"اور مجھے بس یہ ڈر ہے

کہ کہیں تو خود کو جلاتے جلاتے

راکھ نہ ہو جائے…"

افق غصے میں ہے۔

سخت ہے۔

مگر وہ جو ہے

صرف دنیا کے لیے۔

اور مہَر پرسکون ہے۔

خاموش ہے۔

مگر وہ جو ہے

صرف افق کے لیے۔

کیونکہ جب پوری دنیا

انہیں توڑنے کی کوشش کر رہی تھی…

تب انہوں نے

ایک دوسرے کو چن لیا تھا…

اور یہی…

ان کی سب سے بڑی بغاوت تھی۔

>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>

اور جب لوگ صرف اُفق کا نام لے کر تعریف کرتے تھے تو مہر بس ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ خاموش ہو جاتی تھی۔

لوگوں کو کیا معلوم تھا کہ جس برانڈ کو وہ آج صرف اُفق کا خواب سمجھتے ہیں، وہ دراصل مہر اور اُفق دونوں کا مل کر دیکھا ہوا خواب تھا۔

اُفق نے خیالات دیے،

مہر نے ان خیالات میں جان ڈال دی۔

اُفق نے راستے دکھائے،

مہر نے ان راستوں پر گر گر کر چلنا سیکھا۔

جب پہلا کلائنٹ آیا تھا، دونوں نے پوری رات جاگ کر کام کیا تھا۔

مہر نے چائے بنائی تھی، اور اُفق نے برانڈ کا لوگو فائنل کیا تھا۔

وہ رات صرف کام کی نہیں تھی، وہ رات ان دونوں کی بنیاد تھی۔

آج لوگ اسٹیج پر صرف اُفق کو دیکھتے ہیں، مائیک اس کے ہاتھ میں ہوتا ہے، روشنی اسی پر پڑتی ہے۔

لیکن اصل طاقت مجمع میں کھڑی ہوتی ہے،

جہاں مہر خاموشی سے سب کچھ سنبھال رہی ہوتی ہے۔

اور سچ تو یہ ہے کہ:

اگر مہر نہ ہوتی تو اُفق اتنی بلندی تک کبھی نہ پہنچتی۔

اور اگر اُفق نہ ہوتی تو مہر کی صلاحیتیں کبھی یوں روشن نہ ہوتیں۔

دونوں نے مل کر وہ کچھ بنایا جو اکیلے کبھی ممکن نہیں تھا۔

اس لیے ہاں، مہر بھی اُتنی ہی کامیاب ہے جتنی اُفق،

فرق صرف یہ ہے کہ راستہ مختلف ہے۔

>>>>>>>>>>>>>>>>>>...............

بارش دوبارہ شروع ہو چکی تھی۔

نہ تیز… نہ ہلکی۔

بالکل ویسی، جیسی باتیں دل کے اندر برستی ہیں۔

کمرے میں خاموشی پھیل گئی تھی۔

وہ خاموشی جو شور سے زیادہ بھاری ہوتی ہے۔

افق کھڑکی کے پاس کھڑی تھی۔

شیشے سے باہر دیکھ رہی تھی،

مگر اصل میں… اندر دیکھ رہی تھی۔

مہَر نے آہستہ سے پوچھا:

"افق…

وہ میسج کس نے کیا تھا؟"

افق نے پلٹ کر اسے دیکھا۔

اس کی آنکھوں میں ہچکچاہٹ نہیں تھی…

صرف ایک پرانی پہچان کا بوجھ تھا۔

"وہ کوئی بہت بڑا آدمی نہیں ہے…"

اس نے دھیرے سے کہا

"نہ کوئی مافیا ڈان…

نہ کوئی ملک کا طاقتور ترین شخص…"

وہ چند لمحوں کو رکی۔

پھر بولی:

"اس کا نام ہے…

دانش فاروق"

مہَر چونکی۔

"دانش؟

وہی جو…

پانچ سال پہلے تمہاری کمپنی کے فنانس ڈیپارٹمنٹ میں تھا؟"

افق نے ہلکا سا سر ہلایا۔

"ہاں۔

وہی جو ہمیشہ سائیڈ پر رہتا تھا۔

نہ آگے آنے کی ہمت…

نہ پیچھے ہٹنے کی جرات…"

دانش فاروق – 

وہ اس وقت

UFAQ Enterprises کا عام سا آفیسر تھا۔

نہ پاور،

نہ نام۔

لیکن ایک چیز تھی اس کے پاس…

حسد۔

جب کمپنی گرنے والی تھی،

جب افق اور مہَر کو ہر طرف سے روکا جا رہا تھا،

تب دانش نے اپنی غلطیاں چھپانے کے لیے

چپکے سے کمپنی کا اندرونی ڈیٹا بیرونی لوگوں کو دے دیا تھا۔

اور بدلے میں…

کچھ پیسے۔

اور ایک جھوٹی پہچان۔

وہ کبھی سامنے نہیں آیا۔

ہمیشہ پیچھے رہ کر

چیزیں گڑبڑ کرتا رہا۔

اور اب…

جب "Project Hifazat" شروع ہوا

تو اس کا ڈر جاگ گیا۔

کیونکہ اگر یہ منصوبہ کامیاب ہو گیا

تو اس کی سارے پرانے کھیل،

اس کی ساری چالیں،

خود بخود سامنے آ جائیں گی۔

مہَر نے دانت بھینچے۔

"تو وہ خود کچھ نہیں ہے…"

"بس دوسروں کے کندھوں پر بیٹھ کر زہر پھیلاتا ہے؟"

افق نے سرد سانس بھری۔

"ہاں۔

اور سب سے خطرناک دشمن

وہی ہوتا ہے جو بڑا نظر نہیں آتا۔"

بارش شیشے پر اور زور سے پڑی۔

"کیونکہ بڑے دشمن شور مچاتے ہیں…"

افق نے کہا

"اور چھوٹے دشمن

چپ چاپ انسان کے نیچے سے زمین کھینچ لیتے ہیں۔"

مہَر نے آہستگی سے پوچھا:

"اور اب؟

اب ہم کیا کریں گے؟"

افق نے واپس اسکرین کی طرف دیکھا۔

وہی اسکرین جس سے سب شروع ہوا تھا۔

ہاتھ ماؤس پر رکھا۔

آنکھوں میں وہی پرانی آگ۔

"اب ہم اس کو

بڑا نہیں بنائیں گے…"

"ہم اس کو

اپنے قد سے بھی چھوٹا کر دیں گے۔"

مہَر نے اس کی طرف دیکھا۔

اس بار اس کے چہرے پر مسکراہٹ آ گئی۔

"کیونکہ ہم اب وہ نہیں

جو کسی بھی نام سے ڈر جائیں…"

افق نے سر ہلایا۔

"ہم اب وہ ہیں

جن سے لوگ

اپنے نام بھی چھپانے لگتے ہیں۔"

اور باہر…

بارش تھم چکی تھی۔

مگر

ہوا میں اب بھی

سچ کی بو بسی ہوئی تھی۔

>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>

بارش کے بعد کی خاموشی عجیب ہوتی ہے۔

نہ ہوا بولتی ہے، نہ زمین۔

بس فضا میں نمی رہ جاتی ہے

اور یادوں میں زخم۔

کمرے کی بتیاں مدھم تھیں۔

صرف لیپ ٹاپ کی اسکرین کی نیلی روشنی

دیواروں پر سائے بنا رہی تھی۔

مہَر کرسی سے اٹھ کر آہستہ آہستہ افق کے پاس آئی۔

افق اب بھی اسکرین کو دیکھ رہی تھی۔

اس کی انگلیاں کی بورڈ پر نہیں چل رہی تھیں…

وہ رُکی ہوئی تھی۔

سوچ میں نہیں…

یاد میں۔

مہَر نے دھیرے سے کہا:

"افق…

کیا تمہیں یاد ہے…

جب ہم پہلی بار خالی پیٹ سوئے تھے؟"

افق نے پلٹ کر اس کی طرف دیکھا۔

اس کی آنکھوں میں نہ شرمندگی تھی، نہ کمزوری۔

بس ایک سخت سچ۔

"ہاں…

اور وہ دن آج کی دنیا سے زیادہ سچا تھا۔"

مہَر ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ بولی:

"تب بھی تم نے اپنا آخری لقمہ

میرے ہاتھ میں رکھا تھا…"

افق کی نگاہ چند لمحے نیچے جھکی۔

پھر اس نے نظریں ملائیں۔

"کیونکہ میں نہیں چاہتی تھی…

کہ تم وہ بھوک پہچانو

جو میں نے پہچانی تھی۔"

کمرے میں سرد ہوا کا جھونکا آیا۔

پردہ ہلکا سا ہلا۔

باہر سڑک پر گاڑیاں چل رہی تھیں

لیکن ان دونوں کے درمیان

ایک مکمل خاموش دنیا تھی۔

افق دوبارہ اسکرین کی طرف مڑی۔

دانش فاروق کا نام

اب بھی سامنے جگمگا رہا تھا۔

مہَر نے پوچھا:

"کیا وہ صرف ڈیٹا چوری کرنے والا تھا؟

یا اس سے بھی کچھ زیادہ؟"

افق نے گہری سانس لی۔

"دانش کمزور تھا…

لیکن اس کی کمزوری خطرناک تھی۔

ایسے لوگ جو خود کچھ نہیں بناتے

وہ دوسروں کو گرانے کو ہی کامیابی سمجھتے ہیں۔"

اس نے اسکرین بند کر دی۔

اور کرسی سے اٹھ کھڑی ہوئی۔

کمرے میں ٹہلتے ہوئے اس نے کہنا شروع کیا:

"جب کمپنی ڈوب رہی تھی

لوگ ہمیں چھوڑ رہے تھے

تب اس نے چپکے سے ہماری سٹریٹیجی،

ہمارے کانٹریکٹس،

اور ہماری آئندہ کی پلاننگ

ان لوگوں تک پہنچائی

جو ہمیں زمین پر لانا چاہتے تھے…"

مہَر کا چہرہ سنجیدہ ہو گیا۔

"اور کیوں؟

پیسے کے لیے؟"

افق رُک گئی۔

"نہیں…"

"پیسے کے لیے نہیں…"

"انا کے لیے…"

ایک لمحہ خاموشی۔

"اسے یہ برداشت نہیں تھا

کہ دو لڑکیاں

ایک ایسی جگہ کھڑی ہو جائیں

جہاں وہ برسوں میں بھی نہیں پہنچ سکا۔"

مہَر نے ہلکی سی سانس چھوڑی۔

"تو اب وہ کیا چاہتا ہے؟

واپس آنا؟

بدلہ؟

یا ہمیں ختم کرنا؟"

افق کے لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ آئی۔

وہ مسکراہٹ

جو خطرناک ہوا سے پہلے آتی ہے۔

"وہ چاہتا ہے

کہ ہم خود ٹوٹ جائیں…"

"وہ جانتا ہے

کہ ہمیں کوئی باہر سے نہیں گرا سکتا

تو وہ اندر سے دراڑ ڈالنا چاہتا ہے۔"

مہَر نے فوراً کہا:

"لیکن وہ بھول رہا ہے

کہ ہم دونوں پہلے ہی

ٹوٹ کر بنی ہیں…"

افق نے اس کی طرف دیکھا۔

"اور جو ٹوٹ کر بنتا ہے

وہ کبھی دوبارہ نہیں ٹوٹتا۔"

افق واپس میز کے پاس آ کر کھڑی ہو گئی۔

اس نے فون اٹھایا

اور ایک نیا نمبر ڈائل کیا۔

مہَر نے فوراً پوچھا:

"کس کو کال کر رہی ہو؟"

افق کی آواز آہستہ، مگر مضبوط تھی۔

"حارث نواز"

مہَر چونکی:

"وہی سائبر سیکیورٹی والا؟"

افق نے سر ہلایا۔

"ہاں۔

جس نے ہمارے سسٹم کی خامیاں

ہم سے زیادہ دیکھی ہیں۔"

کال ملی۔

"ہیلو؟"

افق نے سیدھا موضوع پکڑا:

"مجھے دانش فاروق کا

پورا ڈیجیٹل بیک گراونڈ چاہیے۔

ہر چیز۔

پچھلے پانچ سال کا۔

خاموشی سے۔

اور صاف طریقے سے۔"

دوسری طرف سے تھوڑی دیر خاموشی رہی۔

پھر آواز آئی:

"وہ خطرناک کھیل ہے افق…"

افق کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ ابھری۔

"خطرہ تو

ہماری صبح کا حصہ بن چکا ہے، حارث…"

فون بند ہو گیا۔

مہَر نے اس کی طرف دیکھا۔

"اور اگر اس نے ہمیں پہلے strike کر دی؟"

افق نے کرسی پر بیٹھتے ہوئے کہا:

"تو وہ اس کی پہلی اور آخری غلطی ہوگی…"

پھر اس نے مہَر کا ہاتھ تھام لیا۔

"کیونکہ اس بار

تم جیسا کوئی

کمزور نہیں…"

مہَر نے آنکھیں بند کر لیں۔

"ہم میں سے

کسی کو کمزور نہیں بننا…

نہ اسے

نہ اس دنیا کو موقع دینا ہے…"

افق نے سر ہلایا۔

"اب ہم صرف بچ نہیں رہے…

اب ہم بنا رہے ہیں…"

"اپنی دیوار…

اپنا نظام…

اور اپنی حکومت…"

باہر آسمان صاف ہو رہا تھا۔

بادل ہٹنے لگے تھے۔

چاند آہستہ آہستہ

بادلوں کے پیچھے سے نکل آیا۔

مہَر نے کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے کہا:

"کیا تمہیں ڈر لگتا ہے؟"

افق نے بھی آسمان کی طرف دیکھا۔

"ہاں…"

"لیکن وہ ڈر نہیں

جو مجھے روکے…"

"وہ ڈر ہے

جو مجھے کبھی رکنے نہ دے…"

اور اسی لمحے

اسکرین پر ایک نیا نوٹیفکیشن آیا:

"Welcome to the game."

افق نے اس بار اسکرین نہیں بند کی۔

اس نے مسکرا کر کہا:

"اب کھیل

شروع ہوا ہے…"

>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>

More Chapters