دروازہ آہستہ سے کھلا۔
کمرے میں روشنی پہلے داخل ہوئی…پھر ایک وجود۔
سادہ سا لباس۔چہرے پر عمر سے زیادہ تھکن۔آنکھوں میں وہی پرانا احساس…جو افق برسوں پہلے دیکھ کر نظر انداز کرنا سیکھ چکی تھی۔
مہــر نے ایک نظر افق کی طرف دیکھی۔افق خاموش تھی۔
وہ عورت چند لمحے دروازے کے پاس ہی کھڑی رہی۔جیسے اندر قدم رکھنے سے پہلے بھی اجازت مانگ رہی ہو…مگر لفظوں کے بغیر۔
آخرکار وہ دھیرے سے آگے بڑھیں۔
"افق…"
وہ نام…جو برسوں سے کسی نے یوں نہیں پکارا تھا۔
افق نے کرسی کی پشت سے ہاتھ ہٹایا،سیدھا کھڑی ہوئی۔اس کی آنکھوں میں نہ غصہ تھانہ محبتبس ایک گہری، سرد سی پہچان۔
"آپ نے آج یہ دروازہ کیوں کھولا،جب پانچ سال پہلےمیرا دروازہ بند کرتے ہوئےآپ نے ایک لمحہ بھی نہیں سوچا تھا؟"
عورت کی نظریں جھک گئیں۔
کمرے میں خاموشی اتنی گہری تھیکہ مہــر کی سانس بھی سنائی دے رہی تھی۔
"میں مانتی ہوں…میں نے تمہیں چھوڑا…"عورت کی آواز بھری ہوئی تھی۔"لیکن میں یہ نہیں جانتی تھی کہتم اتنی دور تک چلی جاؤ گی…"
افق ہنس نہیں رہی تھی۔مگر اس کی آنکھوں میں ایک طنز ابھر آیا۔
"دور نہیں گئی ہوں۔بس اُس جگہ سے نکل آئی ہوںجہاں میری سانس رکتی تھی۔"
عورت نے آہستہ سے سر اٹھایا۔اس کی آنکھیں بھیگ چکی تھیں۔
"میں نے تمہیں نہیں چھوڑا تھا…میں خود ٹوٹ چکی تھی…"
مہــر نے دوسرے طرف منہ کر لیا۔وہ جانتی تھی —یہ لمحہ صرف افق کا ہے۔
افق چند قدم آگے بڑھی۔اور پہلی بار اس عورت کے بالکل سامنے کھڑی ہوئی۔
"جو خود ٹوٹا ہوتا ہےوہ دوسروں کو ٹوٹنے سے بچانے کی کوشش کرتا ہے…انہیں اکیلا نہیں چھوڑتا…"
عورت کے ہاتھ کانپنے لگے۔
"مجھے معاف کر دو…"
وہ الفاظ بہت ہلکے تھےلیکن افق پر برسوں کا وزن رکھتے تھے۔
افق نے گہری سانس لی۔جیسے کسی اندر دفن سوال کو باہر آنے دیا ہو۔
"آپ جانتی ہیںمیں نے ان پانچ سالوں میں سب کچھ خود سے سیکھا…گرنے کے بعد اٹھنا…بھوکے رہ کر بھی خواب زندہ رکھنا…اور سب سے مشکل…خاموشی سے برداشت کرنا…"
وہ تھوڑا رکی۔
"لیکن ایک چیزمیں آج بھی سیکھ نہ سکی…"
عورت نے آنکھوں میں امید لیے دیکھا۔
"کیا؟"
افق کی آواز مدھم ہو گئی۔
"یہ مان لینا…کہ جو چلا جائےوہ دوبارہ واپس آنے کا حق بھی رکھتا ہے…"
کمرے میں ایک بار پھر مکمل خاموشی چھا گئی۔
باہر کی دنیا ابھی بھی شور کر رہی تھی،کیمرے، لوگ، شہرت،لیکن اس کمرے میں waqt تھم سا گیا تھا۔
اور وہ عورتوہیں کھڑی تھی…
نہ اندر آ سکتی تھینہ واپس جا سکتی تھی۔
کیونکہ اب فیصلہ افق کے ہاتھ میں تھا۔
اور افق…اب وہ لڑکی نہیں رہی تھی جسے چھوڑ دیا گیا تھا۔
اب وہ عورت تھی جو طے کرتی ہےکہ کس کو واپس آنے دیا جائے…
اور کس کو نہیں۔
افق نے نظریں اٹھائیں۔براہِ راست اُس عورت کی آنکھوں میں۔
نہ نرمی۔نہ سختی۔بس سچ۔
"آپ کو میں معاف کر دوں گی…"اس کی آواز پرسکون تھی مگر اس میں برسوں کی تھکن بستی تھی۔
عورت کی سانس رک گئی۔
"لیکن…"افق نے بات مکمل کی،"زندگی میں واپس آنے کی اجازت نہیں دوں گی۔"
مہــر کی آنکھیں نم ہو گئیں۔
عورت چونکی:"افق… بیٹی—"
افق نے ہاتھ اٹھا کر روکا۔
"نہیں۔مجھے بیٹی کہنے کا حق آپ نے اُس رات خود چھوڑ دیا تھا۔جب آپ نے دروازہ بند کیا،اور پیچھے مڑ کر بھی نہیں دیکھا۔"
کمرے میں ہوا جیسے جم گئی۔
"معافی دل کو ہلکا کرتی ہے،لیکن واپسی…"افق نے آہستہ کہا،"واپسی زندگی کو دوبارہ توڑ سکتی ہے۔اور میں نے خود کوبڑا مشکل سے جوڑا ہے…"
عورت کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔
"مجھے آپ سے نفرت نہیں ہے…"افق نے گہری سانس لی۔"لیکن میں اتنی کمزور بھی نہیں ہوںکہ آپ کو پھر سے اپنا حصہ بنا لوں۔"
وہ ایک قدم پیچھے ہٹی۔
"میں نے اکیلے چلنا سیکھا ہے۔مہــر کے ساتھ…خوابوں کے ساتھ…اور خود کے ساتھ…"
مہــر نے آہستہ سے افق کا ہاتھ تھام لیا۔
عورت نے آخری نظر اُس پر ڈالی۔ایک نظرجو پچھتاوے سے لبریز تھی۔
اور پھروہ خاموشی سے پلٹی۔
دروازہ بند ہوا۔
لیکن اس بارافق کے پیچھے نہیں…
اس کے پیچھے بند ہوا۔
افق نے آنکھیں بند کیں۔چند لمحے۔
اور جب دوبارہ کھولیں تو ان میں کوئی بوجھ نہیں تھا۔
دروازہ ابھی بند ہی ہوا تھا۔ماں کے قدموں کی آواز بھی ابھی پوری طرح مدھم نہیں ہوئی تھیکہ گیٹ کے پار کسی کی موجودگی کا احساس بدلنے لگا۔
ہوا کی رفتار بدلی۔خاموشی کی رنگت بدل گئی۔
مہــر نے چونک کر باہر دیکھا۔"افق…" اُس کی آواز ہلکی سی کانپی۔
افق نے کچھ نہیں پوچھا۔وہ پہلے ہی جان چکی تھی۔
اور پھروہ اندر داخل ہوا۔
ایان سہیل۔
وہی پرسکون چہرہ۔وہی ٹھنڈی آنکھیں۔وہی انداز… جیسے کچھ بھی اس تک پہنچ ہی نہیں سکتا۔
لیکن آجاس کی آنکھوں میں ایک ایسا شعلہ تھاجو چھپا ہوا نہیں تھا۔
مہــر نے خودبخود ایک قدم پیچھے لے لیا۔افق اپنی جگہ ساکت رہی۔
"اب کیوں آئے ہو؟"افق کی آواز میں تھکن تھی،مگر کمزوری نہیں۔
ایان نے نظر سیدھی اس پر رکھی۔"کیونکہ اب تمہیں جاننا چاہیے…"اس کی آواز دبی مگر صاف تھی،"کہ میں تمہارا دُشمن کیوں ہوں۔"
کمرے کی خاموشی بھاری ہو گئی۔
افق کی پلکیں ایک بار جھپکیں۔"دشمن وہ ہوتا ہےجو نقصان پہنچائے…"وہ بولی،"تم تو بس رکاوٹ تھے، ایان۔"
وہ ہنسا نہیں۔مسکرایا بھی نہیں۔
بس بولا۔
"نہیں، افق…میں رکاوٹ نہیں تھا۔تم میری جنگ کا راستہ بن گئی تھیں۔"
مہــر نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔"کیا مطلب؟"
ایان آہستہ آگے بڑھا۔ہر قدم کے ساتھ فاصلہ کم ہوتا رہا۔لیکن اُس کی آواز میں کوئی جلدی نہیں تھی۔
"پانچ سال پہلے…"وہ بولا،"جب تمهاری پہلی کمپنی نے مارکیٹ میں قدم رکھا تھا…لوگ اسے ایک خواب سمجھ رہے تھے۔ایک عارضی چمک۔لیکن میں نہیں۔"
افق کے چہرے پر کوئی تاثر نہیں آیا۔
"کیونکہ وہ مارکیٹ…"ایان نے دھیرے سے کہا،"وہ میری تھی۔"
ایک لمحے کے لیےوقت جیسے ٹھہر گیا۔
"میرا باپ…اس انڈسٹری کا سب سے بڑا نام تھا۔اور تم…"اس کی آنکھوں میں پہلی بار درد ابھرا،"تم دو لڑکیاں…بغیر کسی سہارے کے…اس کے بنائے ہوئے نظام کو چیرتی چلی گئیں…"
مہــر نے دانت بھینچ لیے۔
"لوگ تمہیں جدوجہد کی مثال کہتے رہے…اور میرے باپ کے بنائے ہوئے ایمپائر کوآہستہ آہستہ تم نے…"اس کی سانس ذرا بھاری ہو گئی،"غیر متعلق بنا دیا۔"
افق کی آنکھیں ذرا سی تنگ ہوئیں۔"تو تمہاری دشمنی کاروباری ہے؟ایان؟"
وہ تلخی سے مسکرایا۔
"نہیں… اگر صرف کاروبار کا ہوتاتو میں تمہاری عزت کرتا…"
وہ رکا۔ایک لمحے کے لیے خاموش ہوا۔
پھر دوبارہ بولا:
"لیکن تمہاری وجہ سےوہ ٹوٹ گیا تھا…صرف بزنس نہیں…انسان بھی۔"
مہــر نے سرگوشی کی:"…تمھارا باپ؟"
ایان نے سر جھکا لیا۔
"وہ ہار مان گیا تھا…"اس کی آواز تھوڑی بھاری ہو گئی۔"اور میرے باپ نے کبھی ہارنا نہیں سیکھا تھا۔"
خاموشی ایک بار پھر پھیل گئی۔
افق نے دھیرے سے کہا:"میں نے کسی کو نہیں توڑا، ایان…میں نے بس خود کو بنایا تھا۔"
وہ سیدھا ہوا۔آنکھوں میں پھر وہی سختی آ گئی۔
"اور اسی لیے…"وہ بولا،"میں تم سے نفرت کرتا ہوں۔کیونکہ تم نے یہ ثابت کر دیاکہ ایک سلطنت بھی دو خالی ہاتھ لڑکیوں کے سامنےکھڑی نہیں رہ سکتی…"
وہ مڑا۔جانے کے لیے۔
لیکن دروازے پر پہنچ کر رکا۔
"لیکن سن لو، افق…"اس نے پیچھے دیکھے بغیر کہا،"میں اب تمہارے ماضی کا دشمن نہیں ہوں…"
اس نے آہستہ سا سر گھمایا۔
"میں تمہارے حال کا سب سے بڑا امتحان ہوں۔"
اور وہ چلا گیا۔
دروازہ بند ہوا۔
مہــر نے گہرا سانس لیا۔"اب؟"
افق نے کھڑکی کی طرف دیکھا۔جہاں کبھی وہ سایہ کھڑا تھا۔
اور آہستہ سے کہا:
"اب…ہم اسے ہرانے کے لیے نہیں…"
وہ رکی۔
"خود کو بچانے کے لیے کھیلیں گے۔"
;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;
دروازہ ابھی بند ہی ہوا تھااور ایان کی موجودگی ابھی تک دیواروں میں گونج رہی تھیکہ اچانک…
افق کے فون کی اسکرین روشن ہوئی۔
ایک نہیں۔پانچ…پھر دس میسیجز۔
مسلسل۔
مہــر نے چونک کر کہا:"کیا ہوا؟"
افق نے اسکرین دیکھی۔اور پہلی باراس کی انگلیاں ہلکی سی رک گئیں۔
اسکرین پر ایک ہی جملہ بار بار تھا:
"UFQ Corporation accused of data theft."
اور ساتھ…میڈیا لنکس۔سوشل میڈیا اسکرین شاٹس۔اور ایک ویڈیو کلپ۔
افق نے ویڈیو چلائی۔
اسکرین پر اس کی اپنی کمپنی کا سرور روم تھا۔رات کا وقت۔مدھم روشنی۔اور کوئی…چہرے پر کیپ لیےڈیٹا ایکسپورٹ کر رہا تھا۔
اور ویڈیو کے نیچےایک نام:
UFQ internal report leak
مہــر کے منہ سے آہستہ سے نکلا:"…یہ جھوٹ ہے۔"
افق نے ویڈیو بند نہیں کی۔اس نے غور سے دیکھا۔
کیونکہوہ جانتی تھی…یہ جعلی تھا۔
لیکن…
"یہ کل رات کا ہے…"افق کی آواز بہت دھیمی تھیمگر بہت صاف۔
مہــر کی آنکھیں پھیل گئیں۔"کل رات تو صرف…"وہ رک گئی۔
"ہم اور سیکیورٹی ہی تھے…"افق نے جملہ مکمل کیا۔
خاموشی کمرے میں زہر کی طرح پھیل گئی۔
ایک اور کال آئی۔
افق نے اٹھائی۔
دوسری طرف PR مینیجر تھا:"Ma'am! Share prices dropping fast…Investors panicking…ہمیں فوراً statement چاہیے…"
مہــر کا دل دھڑکنے لگا۔
افق نے فون کان سے ہٹا کرایک لمحہ کے لیے آنکھیں بند کیں۔
مگر وہ کمزور ہونے کے لیے نہیں تھیں۔
وہ سوچنے کے لیے تھیں۔
فون دوبارہ کان سے لگایا۔
"کوئی بھی بیان ابھی نہیں دے گا۔"اس کی آواز میں کمانڈر جیسی سختی تھی۔"جس نے اندر سے یہ لیک کیا ہےوہ چاہتا ہے ہم گھبرا جائیں۔"
"لیکن Ma'am—"
"ہم نہیں گھبرائیں گے۔"افق نے بات کاٹ دی۔"ہم اسے خود بے نقاب کریں گے۔"
فون کٹ گیا۔
مہــر نے اس کی طرف دیکھا۔"یہ ایان ہے؟"
افق نے سیدھے جواب نہیں دیا۔
وہ صرف اتنا بولی:"ابھی تو یہ پہلا وار ہے…"
وہ میز کی طرف بڑھی۔لیپ ٹاپ کھولا۔کی بورڈ پر انگلیاں رکھیں۔
اسکرین پر فائلز کھل گئیں۔سرور لاگز، ایکسیس رپورٹس، یوزر آئی ڈیز۔
"وہ ہمیں نیچا نہیں دکھانا چاہتا…"افق دھیرے سے بولی"وہ ہمیں اندر سے توڑنا چاہتا ہے۔"
مہــر اس کے پاس آ کر کھڑی ہوئی۔
"تو پھر ہم؟"
افق نے مسکرا کر نہیں دیکھا،وہ ویسے بھی مسکرانے کے موڈ میں نہیں تھی۔
"ہم وہی کریں گےجو سب کو ناممکن لگتا ہے۔"اس نے اسکرین کی طرف اشارہ کیا۔
"ہم اسے پکڑیں گے…اپنی ہی کمپنی کے اندر سے۔"
خارج سے بارش شروع ہو چکی تھی۔ہلکی نہیں…تیز۔
جیسے آسمان بھی کہہ رہا ہو:اب کھیل شروع ہوا ہے۔
اور اسی لمحےافق کے سسٹم پرایک نیا نوٹیفکیشن آیا:
Unknown user logged in…Location: Internal.
مہــر نے سرگوشی کی:"وہ ابھی بھی یہاں ہے…"
افق کی آنکھوں میں اب ڈر نہیں تھا۔
صرف چمک تھی۔
"ہاں…"وہ بولی۔
"اور ابوہ ہم سے چھپ نہیں سکے گا۔"
;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;
بارش تیز ہو چکی تھی۔کھڑکیوں سے ٹپکتی بوندیں جیسے ہر گزرتے لمحے کا شور بن چکی ہوں۔
آفس تقریباً خالی تھا۔صرف چند سیکیورٹی گارڈز…اور بس وہ دونوں۔
افق نے اسکرین پر لاگ ان ڈیٹا زوم کیا۔IP ایڈریس۔ٹائم اسٹیمپ۔یوزر آئی ڈی۔
اور پھر…
وہ رک گئی۔
مہــر نے فوراً پوچھا:"کیا ہوا؟"
افق نے آہستہ سے اسکرین گھما کر دکھائی۔
یوزر نیم لکھا تھا:
A.Malik
محض ایک نام۔مگر اس کے پیچھے پوری طوفانی تاریخ۔
مہــر کی آواز کانپ گئی:"یہ تو… ہمارا سسٹم انجینئر ہے… علی؟"
افق نے سر ہلایا۔"ہاں۔ وہی جسے کامیابی کے پہلے دن ہم نے خود چنا تھا۔"
خاموشی دوبارہ گہری ہو گئی۔
"لیکن وہ کیوں…؟"مہــر نے دھیرے سے کہا۔
افق کی آنکھوں میں ہلکی سی تلخی اتری۔"کیونکہ سب کچھ پیسوں کے لیے نہیں ہوتا،کچھ لوگ عزت سے محروم ہو جائیں تو وہ انتقام کو رزق بنا لیتے ہیں…"
اس نے چیئر پیچھے کی۔کھڑی ہوئی۔
"چلو۔"
مہــر چونکی۔"کہاں؟"
"سرور روم۔وہ ابھی بھی آن لائن ہے…اور میں چاہتی ہوں وہ ہمیں وہاں ملےجہاں وہ خود کو سب سے طاقتور سمجھ رہا ہے۔"
سرور روم کی روشنیاں نیلی تھیں۔مشینوں کی ہلکی گونج۔جیسے دلوں کی دھڑکنیں کوئی گنتی بنا رہی ہوں۔
وہ دونوں آہستہ آہستہ اندر داخل ہوئیں۔
اور پھر…وہ نظر آیا۔
علی۔
کمپیوٹر اسکرین کے سامنے۔کان میں ایئر بڈ۔ہاتھوں کی رفتار تیز۔
جیسے وقت سے دوڑ رہا ہو۔
افق نے قدموں کی آواز جان بوجھ کر اونچی کی۔
علی چونک کر مڑا۔
اس کے چہرے سے رنگ اڑ گیا۔
"Ma'am… آپ؟آپ یہاں اس وقت—؟"
افق نے ایک لمحے کو بھی آنکھ نہیں جھپکائی۔
"ڈاٹا چرا کرمجھ سے پوچھنے آئے ہو کہ میں یہاں کیوں ہوں؟"
خاموشی۔
مشینوں کی آواز۔اور علی کی سانسیں۔
مہــر آگے بڑھی:"کیوں؟ہم نے تم پر اعتبار کیا تھا!"
علی نے ہلکا سا ہنسی جیسا سانس چھوڑا۔"آپ نے نہیں…صرف استعمال کیا تھا…"
افق کی نظر تیز ہو گئی۔"استعمال؟ہم نے تمہیں نام دیا۔عہدہ دیا۔اعتماد دیا…"
علی کی آواز میں زہر تھا:"اور ذہنی سکون چھین لیا…"
وہ بولا:"آپ نے مجھے سامنے رکھا…مگر ساری تعریف خود سمیٹی…"
مہــر غصے سے بولی:"یہ بہانہ ہے!"
مگر افق نے ہاتھ اٹھا کر اسے روکا۔
وہ خاموش رہی۔
پھر دھیرے سے کہا:"تم نے ڈیٹا کس کو دیا، علی؟"
علی کی آنکھیں نیچے جھک گئیں۔
افق نے دوبارہ پوچھا،اس بار آواز میں لوہا تھا:
"کس کو دیا؟"
علی ہنسا۔ایک تلخ ہنسی۔
"جس نے آپ کو بنایا ہے…اور جو آپ کو توڑنا بھی جانتا ہے…"
مہــر کا دل بیٹھ گیا۔
"ایان؟"وہ سرگوشی میں بولی۔
علی نے نظریں اٹھائیں۔
اور پہلی بار…افق نے اس کے چہرے پر سچ دیکھا۔
"ہاں…"وہ بولا۔
"ایان۔"
کمرے میں جیسے ہوا بھی رک گئی۔
افق آگے بڑھی۔بالکل اُس کے سامنے۔
"تم نے غلطی کی، علی…"اس کی آواز بہت دھیمی تھیمگر بہت خطرناک۔
"اب صرف میری کمپنی خطرے میں نہیں–اب تم خود ہو۔"
علی نے نگل کر کہا:"آپ مجھے کیا کریں گی؟ پولیس؟ جیل؟"
افق نے مسکرا کر سر جھکایا۔
وہ مسکراہٹجو دشمن کے خواب بکھیر دیتی ہے۔
"نہیں…"وہ بولی۔
"میں تمہیں ابھی نہیں پکڑواؤں گی…"
علی حیران ہوا۔مہــر بھی۔
افق نے سرور اسکرین کی طرف اشارہ کیا:
"تم اسی طرحڈیٹا بھیجتے رہو گے…"
علی چونکا۔"مطلب…؟"
افق نے آنکھیں تنگ کیں۔
"ہم تمہیں ایان تک پہنچنے دیں گے…اور پھراسے اس کے اپنے جال میں پھنسا دیں گے…"
مہـر نے آہستہ کہا:"تم اسے double agent بنا رہی ہو…؟"
افق نے سر ہلایا۔
"وہ ہمارے خلاف کھیل شروع کر چکا ہے…مگر اسے یہ نہیں پتا…"
وہ علی کی طرف دیکھی۔
"…کہ ہم اباس سے دو قدم آگے ہیں۔"
علی نے کانپتی آواز میں کہا:"اگر اس نے مجھے مار دیا تو؟"
افق کی آنکھوں میں کوئی ہمدردی نہیں تھی۔
صرف حقیقت تھی۔
"تو زندہ رہنا سیکھ لو…"وہ بولی۔
"کیونکہ اب تمہاری زندگیصرف تمہاری نہیں رہی…"
وہ مڑی۔مہــر اس کے ساتھ چل پڑی۔
دروازہ بند ہونے لگا۔
اور پیچھے سےعلی کی سرگوشی سی گونجی:
"وہ صرف دشمن نہیں ہے…وہ آپ کا سب سے پرانا زخم ہے…"
دروازہ بند۔
خاموشی۔
مہــر نے آہستہ پوچھا:"وہ کیا مطلب تھا؟"
افق کچھ دیر خاموش رہی…
پھر بولی:"یہ کہانی ابھیاپنے سب سے مسلہ دار حصے میں داخل ہوئی ہے…"
;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;
سرور روم کے دروازے کے بند ہوتے ہی ایک عجیب خاموشی چھا گئی تھی۔پنکھے کی تیز آواز، سسٹمز کی ہلکی بھنبھناہٹ، اور افق کے دل کی دھڑکن — تینوں الگ الگ لے میں چل رہے تھے۔
علی پیچھے رہ گیا تھا۔اس نے آخری بار سرور اسکرین کو دیکھا اور صرف اتنا بولا:
"سس… اب سب کلئیر ہے۔ ڈیٹا سیف ہے۔ کوئی کچھ ثابت نہیں کر سکے گا۔"
افق نے سر ہلایا۔چہرے پر سکون تھا… مگر آنکھوں میں تھکن اور ایک ان کہی جنگ کی جھلک۔
"ثابت کچھ بھی نہیں ہوتا، علی…لوگ مانتے ہیں، تب ہی سچ بنتا ہے۔"
وہ پلٹی اور مہر کی طرف دیکھا۔
مہر دیوار سے ٹیک لگائے کھڑی تھی۔اس کی آنکھوں میں ہمیشہ کی طرح ہمت تھی…اور درد بھی۔
"اب مانوانے کا وقت ہے، ہے نا؟" مہر نے پوچھا۔
افق نے آہستہ سر ہلایا۔"کل۔ میڈیا میں۔ سب کے سامنے۔"
اگلا دن – میڈیا کا بڑا انٹرویو
ہال بھر چکا تھا۔
کیمرے ترتیب میں لگے تھے،مائیکس آن تھے،اور باہر شور تھا۔
مگر اسٹیج پر…صرف افق اور مہر تھیں۔
کوئی تیسرا نہیں۔کوئی بیک اپ نہیں۔بس وہ دونوں۔
میز کے پیچھے بیٹھیں، سیدھی، مضبوط، اور بغیر کسی بناوٹ کے۔
ایک رپورٹر نے سوال کیا:"افق، آپ کی کمپنی پر کافی الزامات لگے۔ فنانشل فراڈ، خاموشی، اور مشکوک ڈیلز کے… آج آپ کیا جواب دیں گی؟"
ہال میں سناٹا چھا گیا۔
افق نے مائیک کو آہستہ سے اپنی طرف کیا۔
اس کی آواز میں کوئی چیخ نہیں تھی۔کوئی دفاع نہیں تھا۔صرف سچ تھا۔
افق کا جواب:
"لوگوں کو شور سنائی دیتا ہے…خاموش محنت نہیں۔
ہم نے پانچ سال میں جو بنایا، وہ کسی کے رحم پر نہیں تھا۔نہ کسی سرمایہ دار کے سہارے،نہ کسی شارٹ کٹ سے۔
ہم نے غلطیاں بھی کیں…اور ان کی قیمت بھی خود ادا کی۔
لیکن جو الزامات لگے،وہ نہ صرف بے بنیاد ہیں،بلکہ ان بچیوں کی محنت پر سوال ہیں جو ہمیں دیکھ کر اپنے خواب بُن رہی ہیں۔"
اس نے چند سیکنڈ کا وقفہ لیا۔
پھر اس کی آواز اور مضبوط ہو گئی:
"ہم صرف ایک کمپنی نہیں ہیں۔ہم ایک مثال ہیں۔کہ ایک لڑکی صرف کسی کے گھر کی زینت نہیں…وہ اپنا نظام بھی چلا سکتی ہے۔"
اب مہر بولی:
مہر تھوڑا آگے جھکی۔
"ہمیں کسی کو نیچا دکھانا نہیں ہے۔نہ میڈیا کو، نہ مخالفین کو…
ہم صرف ان لڑکیوں کو اوپر اٹھانا چاہتے ہیں جو روز سنتی ہیں:'تم نہیں کر سکتیں''یہ تمہارا کام نہیں''یہ مردوں کی دنیا ہے'"
وہ مسکرائی۔
"یہ دنیا انسانوں کی ہے۔اور انسان بننا… کسی جنس سے مشروط نہیں۔"
افق کا خاص پیغام لڑکیوں کے لیے:
کیمرہ افق پر زوم ہوا۔
اس نے سیدھا لینس میں دیکھا۔
"اگر تم یہ دیکھ رہی ہو…اور تمہیں لگتا ہے تم اکیلی ہو…تو نہیں ہو۔
ہم بھی اکیلی تھیں۔خاندان کے باوجود…رشتوں کے باوجود…ہجوم کے بیچ بھی۔
لیکن ہم نے ہارنا نہیں سیکھا۔ہم نے انتظار نہیں کیا کہ کوئی ہمیں موقع دے۔ہم نے خود اپنی جگہ بنائی۔"
اس نے نرم مگر فیصلہ کن انداز میں کہا:
"اور آج اگر ہماری کمپنی پر کوئی داغ لگا بھی ہے…تو آج سے وہ صرف سیکھ کی ایک لکیر ہے۔شرمندگی نہیں۔"
ہال میں خاموشی چھا گئی۔
پھر ایک رپورٹر نے آہستہ سے پوچھا:
"تو آپ اپنے مخالفین کو کیا پیغام دیں گی؟"
افق نے مسکرا کر کہا:
"پیغام نہیں…میں صرف ایک حقیقت چھوڑوں گی:
جو لوگ عورت کو کمزور سمجھتے ہیں…وہ دراصل اس کی خاموش طاقت سے ڈرتے ہیں۔"
ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔
اور سوشل میڈیا پر صرف ایک جملہ ٹرینڈ کرنے لگا:
"افق کوئی لڑکی نہیں… ایک مثال ہے."
;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;
کیمرے بند ہو چکے تھے۔لائٹس مدھم پڑ گئیں۔ہال خالی ہونے لگا۔
وہی جگہجہاں کچھ منٹ پہلے تالیوں کی گونج تھیاب صرف خاموشی تھی۔
افق کرسی سے اٹھی نہیں۔بس وہیں بیٹھی رہی۔جیسے اس کا جسم سٹیج پر ہومگر اس کی روح کہیں اور بھٹک رہی ہو۔
مہر نے مائیک ایک طرف رکھا۔
"تم نے کمال کر دیا…"اس نے آہستہ کہا۔
افق نے بغیر دیکھے جواب دیا:"کمال تب ہوتا ہے جب اندر بھی اتنا ہی سکون ہو جتنا باہر نظر آتا ہے…"
اس کی آواز میں فخر نہیں تھا۔صرف تھکن تھی۔
تنہائی کا لمحہ — جہاں اصل افق ہوتی ہے
مہر اس کے قریب آئی۔
"کیا اب بھی ڈر لگتا ہے؟"اس نے پوچھا۔
افق نے ہلکی سی ہنسی میں جواب دیا:
"ڈر؟نہیں…اب غصہ آتا ہے۔"
وہ آہستہ سے کھڑی ہوئی۔کھڑکی کی طرف بڑھی۔
باہر شہر کی روشنیاں تھیں…وہی شہرجسے وہ دونوں نے صفر سے فتح کیا تھا۔
"مسئلہ یہ ہے مہر…""لوگ سمجھتے ہیں مضبوط ہوناصرف اونچی آواز میں بولنا ہوتا ہے۔
لیکن اصل طاقتخاموشی میںاپنے آپ کو قابو میں رکھنا ہے…"
مہر نے اس کو غور سے دیکھا۔
"اور اگر نہ رکھا جا سکا؟"
اس بار افق نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔اس کی نظر میں کچھ بدل چکا تھا۔
"تو پھریہ شہر کسی کے لیے بھی محفوظ نہیں رہے گا…"
ادھر… آیان
دوسری طرف،ایک تاریک آفس میںبڑی اسکرین پروہی انٹرویو چل رہا تھا۔
افق کا چہرہ،اس کی آواز،اس کا اعتماد…
اسکرین کے سامنےآیان بیٹھا تھا۔
خاموش ساکت لیکن آنکھوں میں آگ۔
اس نے ریموٹ بند کیا۔
"اب لوگ اس کو ہیرو سمجھنے لگے ہیں…"اس نے سرد لہجے میں کہا۔
اس کے سامنے کھڑا ایک آدمی بولا:"سر، میڈیا تو آپ کے ہاتھ میں بھی ہے…"
آیان نے آہستہ مسکرایا۔
"مجھے میڈیا نہیں چاہیے…مجھے اس کی کمزوری چاہیے۔"
آدمی نے چونک کر پوچھا:"اس کی کمزوری؟ وہ تو—"
آیان نے بات کاٹ دی۔
"ہر طاقتور انسان کے پیچھےایک زخم ہوتا ہے…"
اس نے آنکھیں بند کیں۔
"اور میں وہی زخم ہوں۔"
واپس افق کے پاس…
رات ہو چکی تھی۔
افق اور مہر گاڑی میں بیٹھی تھیں۔شہر کی لائٹس شیشے پر سرک رہی تھیں۔
مہر نے دھیمی آواز میں کہا:
"آج تم نے صرف الزامات کا جواب نہیں دیا…تم نے بہت سی لڑکیوں کو ہمت دی ہے…"
افق نے گردن پیچھے سیٹ سے ٹکائی۔
"اور اس کی قیمت بھی چکانی پڑے گی…"
مہر چونک گئی:"کس قیمت؟"
افق نے کھڑکی سے باہر دیکھا۔
"جو روشنی بنتے ہیں نا مہر…ان پر سائےہمیشہ پہلی ضرب لگاتے ہیں…"
گاڑی اندھیرے میں گم ہوتی گئی۔
اور شہر خاموشی سےاگلی آندھی کا انتظار کرنے لگا…
;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;
وہ رات دیر تک نہیں سوئی۔
نہ اس لیے کہ خوف تھا،اور نہ اس لیے کہ فکر…
بلکہ اس لیےکہ اس کے اندر ایک نئی آواز جاگ رہی تھی۔
ایک ایسی آوازجو برسوں سےخاموش تھی۔
جیسے کسی نےاس کے دل کے کسی بند دروازے پرہلکی سی ٹھوکر ماری ہو۔
اور اب وہ دروازہکھل چکا تھا۔
;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;
وہ اپنی کمپنی کے آفس میں اکیلی بیٹھی تھی۔
کمرے میں لائٹس کم تھیں،صرف ٹیبل لیمپ کی زرد روشنیاس کے چہرے کو آدھا روشن،آدھا اندھیرے میں چھوڑ رہی تھی۔
مہر سامنے کرسی پر تھی۔خاموش۔
افق نے فائل بند کی۔
اور پہلی باراس کی آواز میں نرمی نہیں تھی۔
"اب بہت ہو گیا…"
مہر نے سر اٹھایا:
"کس کا؟"
افق نے آہستہ کہا:
"برداشت کا۔صبر کا۔سمجھوتوں کا۔"
افق اپنی کرسی سے اٹھی۔کھڑکی کے پاس جا کر کھڑی ہو گئی۔
نیچے شہراسی طرح روشن تھا۔
مگر آجاسے وہ روشنیاں معصوم نہیں لگ رہی تھیں۔
"یہ شہر…"وہ بولی،"یہ کمزوروں کو چبا جاتا ہےاور طاقتوروں کو دیوتا بنا دیتا ہے۔"
مہر نے دھیرے سے کہا:"اور ہم نے تو یہ سب بغیر طاقت کے جیتا ہے…"
افق نے مسکرا کر جواب دیا:
"نہیں مہر…"
وہ آہستہ مڑی۔
"ہم نے طاقت کے بغیر نہیں…ہم نے بس ابھی تک طاقت استعمال نہیں کی تھی…"
مہر کی آنکھیں پھیل گئیں۔
"افق…"
"نہیں…"اس نے بات کاٹ دی۔
"اب نہ کوئی ہم پر جھوٹے الزام لگائے گانہ کوئی ہمیں نیچا دکھانے کی کوشش کرے گانہ کوئی ہماری خاموشی کو کمزوری سمجھے گا…"
وہ واپس میز کے ساتھ ٹکی۔
اور آہستہ سے کہا:
"جو ہم سے ٹکرائے گا نا…اسے ضرب نہیں لگے گیاسے ایسا بھٹکایا جائے گاکہ اسے خود سمجھ نہ آئےکہ وہ گرا کیسے…"
مہر نے سانس لیا۔
"یہ خطرناک راستہ ہے افق…"
افق کی نظریں ٹھنڈی ہو گئیں۔
"دنیا نے ہمیں کب محفوظ چلنے دیا ہے، مہر؟"
وہ تھوڑا جھکی۔
"جن لوگوں نے ہمیں توڑنے کی کوشش کی تھی…اب ہم انہیں توڑیں گے نہیں…"
خاموشی…
"ہم انہیں ان کے اپنے ہی غرور میں ڈبونے والے ہیں…"
اسی لمحےاس کا فون وائبریٹ ہوا۔
اسکرین پر نام چمکا:
افق نے فون اٹھا کرصرف ایک جملہ کہا:
"جو لوگ آج ہمیں بدنام کر رہے ہیںکل وہہماری کہانی بیچیں گے…"
نوید حیران ہوا:"لیکن کیسے؟"
افق نے آنکھیں بند کیں۔
"انہیں خبر نہیں دینا…انہیں بھوک دینی ہے…"
وہ فون بند کر کےمہر کی طرف دیکھتی ہے۔
"جب تک وہ بھوکے رہیں گےوہ میری طرف ہی دیکھتے رہیں گے…"
مہر نے آہستہ کہا:
"یہ تم وہ نہیں ہو جو میں جانتی تھی…"
افق مسکرا دی۔
مگر اس مسکراہٹ میںکوئی روشنی نہیں تھی۔
"نہیں مہر…یہ میں ہی ہوں…"
وہ کھڑکی کی طرف دیکھتی ہے۔
"بس یہ وہ میں ہےجسے مجبور ہو کر جنم لینا پڑا…"
اور دور کہیں… آیان
ایک خالی آفس،اندھیرا،سردی۔
ایک آدمی نے آ کر کہا:
"سر، افق نے میڈیا کے بڑے بڑے ناموں سے خاموش ملاقاتیں شروع کر دی ہیں…"
آیان نے آہستہ سر اٹھایا۔
"تو وہ آخرکار جاگ گئی…"
وہ ہلکا سا مسکرایا۔
"اب مزہ آئے گا…"
;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;
شہر ابھی پوری طرح جاگا نہیں تھا۔
سڑکوں پر ہلکی ہلکی دھند تیر رہی تھی،جیسے وقت خود ابھی نیم خواب میں ہو۔
افق کھڑکی کے پاس کھڑی تھی۔ہاتھ میں کافی کا کپاور آنکھوں میں کچھ ایساجس کا نام اب ہار نہیں تھانہ دردنہ خوف…
بلکہ فیصلہ۔
مہر پیچھے بیٹھی تھی،خاموش مگر اس کی سانسوں میں سوالات تھے۔
"آج کیا کرنے والی ہو؟"آخر اس نے پوچھ ہی لیا۔
افق نے پلٹ کر نہیں دیکھا۔بس اتنا کہا:
"آج…ہم سچ کو ایسی جگہ لے جائیں گےجہاں سے جھوٹ بھاگنے پر مجبور ہو جائے۔"
اسی لمحےاس کا فون بجا۔
اسکرین پر لکھا تھا:
Ali – Server Head
وہی علی جس سے وہ سرور روم میں ملی تھی۔
اس نے کال اٹھائی۔
"بولیں…"افق کی آواز نرم تھی لیکن نیچے کچھ اور چھپا تھا۔
"میم،جس شخص نے آپ کی کمپنی کے ڈیٹا میں چھپ کر تبدیلیاں کی تھیں اس کا آئی پی ٹریک ہو گیا ہے…"
افق کی پلکیں آہستہ جھپکیں۔
"اور؟"
"وہی شخصآیان سہیل کی ایک سب کمپنی سےکنیکٹ ہو رہا ہے…"
کمرے میں خاموشی اتر آئی۔
مہر نے چونک کر افق کی طرف دیکھا۔
افق نے بس کہا:
"اچھا…"جیسے وہ پہلے سے جانتی ہو۔
"آج سےاسے ہاتھ مت لگانا۔نہ روکو…نہ پکڑو…"
علی حیران ہوا:"لیکن میم، وہ تو ہمیں نقصان—"
افق نے بات کاٹ دی:
"میں نے کہا…چھوڑ دو اُسے…"
پھر آہستہ سے کہا:
"اور اس کے لیے ایک نیا راستہ کھول دو…ایسا راستہ جو اُسے لگےکہ وہ جیت رہا ہے…"
فون کٹ گیا
مہر آگے بڑی۔
"یہ کیا کر رہی ہو تم؟وہ تو دشمن ہے!"
افق نے پہلی بارمہر کی طرف دیکھا۔
اور اس کی آنکھوں میںکوئی غصہ نہیں تھا…
بس گہرائی تھی۔
"دشمن کوجب تک لگے کہ وہ جیت رہا ہےوہ سب سے زیادہ سچ بولتا ہے…"
وہ آہستہ سے مسکرائی۔
"اور مجھے سچ چاہیے…اس کا مقصد نہیں۔"
اسی دن شام کوکمپنی کا بڑا ہالمیڈیا سے بھرا تھا۔
کیمروں کی لائٹسآنکھوں کو چبھ رہی تھیں۔
صحافیوں کے سوال نشتر کی طرح۔
مہر افق کے ساتھ بیٹھی تھی۔
ایک رپورٹر بولی:"افق صاحبہ…آپ پر جو الزامات لگےکہ آپ کی کمپنی غیر قانونی ڈیٹا استعمال کرتی ہے—"
افق نے سوال پورا بھی نہیں ہونے دیا۔
بس آہستہ سے کہا:
"ہم ہر الزام کورد نہیں کرتے…"
ہال میں سرگوشیاں شروع ہو گئیں۔
وہ بولتی رہی:
"ہم اسےثبوت میں بدل دیتے ہیں…"
اور پھراس نے اسکرین آن کر دی۔
پیچھے بڑی سکرین پرکیونکہ جو نکلاوہ صرف ڈیٹا نہیں تھا…
بلکہپورا نیٹ ورک۔
جھوٹ کی جڑاس کی شاخیںاور وہ ہاتھجو اسے پانی دے رہے تھے۔
مہر نے سر جھکا لیا۔
کیونکہ اسے سمجھ آ گیا تھا…
یہ افق دفاع نہیں کر رہی تھی۔
یہشکار بچھا رہی تھی۔
اور آیان…
دوسری طرفایک شیشے کے کمرے میںآیان سب دیکھ رہا تھا۔
سکرین پر افق۔
اس کی آواز۔
اس کا سکون۔
اس کا کنٹرول۔
اس نے آہستہ سے مسکرا کر کہا:
"تو آخرکار…تم کھیل سمجھ گئی ہو افق…"
پھر سر تھوڑا جھکا کر بولا:
"مگر تم بھول رہی ہویہ کھیل میں شروع نہیں کرتا…"
اس نے فون اٹھایا۔
"پلان بی شروع کرو…"
;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;
میڈیا انٹرویو ختم ہو چکا تھا۔کیمروں کی لائٹس بند ہو گئی تھیں، مگر ہال کی شیشوں میں افق کی آنکھوں کی چمک ابھی تک زندہ تھی۔
مہَر نے آہستہ سے کہا:"آج تم نے صرف لڑکیوں کو حوصلہ نہیں دیا…تم نے اپنا دوسرا چہرہ بھی دنیا کے سامنے رکھا ہے۔"
افق مسکرائی، لیکن اس مسکراہٹ میں نرمی نہیں تھی۔بس ایک فیصلہ تھا۔
"وہ تو صرف چہرہ تھا مہَر…اصل کھیل تو ابھی شروع ہوا ہے۔"
سرور روم کے بعد کیا ہوا؟
علی سے سرور روم میں ملنے کے بعد جو کچھ ہوا،وہ صرف ایک ملاقات نہیں تھی…وہ افق کے اندر کے اندھیروں کا پہلا دروازہ تھا۔
علی نے سکرین پر کمپنی کے پرانے خفیہ ریکارڈز کھولے:کرپٹ ڈیلز، چھپی ہوئی پارٹنرشپس،اور ان لوگوں کے نام…جو اندر ہی اندر کمپنی کو کھوکھلا کر رہے تھے۔
علی نے کہا:"تمہاری کمپنی صرف ایک برانڈ نہیں…یہ جنگ کا میدان ہے۔یا تم ملکہ بنو گی… یا کسی فائل میں دب جاؤ گی۔"
افق نے سکرین کو دیکھا…اور اس کی آنکھوں میں وہ روشنی آئی جو صرف فاتحوں کی ہوتی ہے۔
"میں ملکہ نہیں بنوں گی…میں وہ ہوں جس کا نام سن کر لوگوں کے فیصلے بدل جاتے ہیں۔"
اسی رات اس نے اپنی سیکیورٹی اور لیگل ٹیم کو بلایا۔فائلز میز پر رکھ دی گئیں۔
"جو لوگ میری کمپنی کے نام کو داغ بنا رہے ہیں…میں ان کو خود تاریخ بنا دوں گی۔"
مہَر نے اسے روکتے ہوئے کہا:"افق… یہ راستہ بہت اندھیرا ہے…واپس آنا مشکل ہو جاتا ہے۔"
افق دھیرے سے بولی:"میں واپس آنے کے لیے نہیں چل رہی مہَر…میں راستہ بدلنے جا رہی ہوں۔"
جس چینل نے اسے بدنام کیا،وہ دراصل اس کے دشمنوں سے خفیہ فنڈنگ لے رہا تھا…افق نے ثبوت کے ساتھ سب بے نقاب کر دیا۔
جو سرمایہ کار اندر سے کھیل رہے تھے،افق نے انہیں قانونی اور مالی جال میں پھنسایا۔
ہر چال پلاننگ سے،ہر قدم ثبوت کے ساتھ…تا کہ کوئی اس پر انگلی بھی نہ اٹھا سکے۔
لوگ کہنے لگے:"افق خطرناک ہو گئی ہے…"
لیکن مہَر جانتی تھی…افق خطرناک نہیں ہوئی…بس اس نے درد کو ہتھیار بنا لیا تھا۔
افق کی اندرونی آواز
رات کو اپنے آفس کی کھڑکی کے سامنے کھڑے ہو کرشہر کی روشنیوں کو دیکھتے ہوئے افق نے سوچا:
"میں وہ لڑکی نہیں جو صبر کر کے ٹوٹ جائے…میں وہ ہوں جو ٹوٹ کر بھی نظام ہلا دیتی ہے۔"
وہ لوگوں کے جھوٹ کے سامنے آئینہ رکھ دیتی ہے۔
اور جب لوگ خود کو دیکھتے ہیں…تو وہ خود ہی ہار جاتے ہیں۔
;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;
ات کے تین بج چکے تھے۔rپورا آفس خاموش تھا۔ صرف دیوار پر لگی گھڑی کی ٹک ٹک اور افق کے لیپ ٹاپ کی نیلی روشنی زندہ تھی۔
مہَر دروازے پر کھڑی اسے دیکھ رہی تھی۔وہی افق جس کے ساتھ اس نے فٹ پاتھ پر خواب بُنے تھے…آج وہ شیشے کے اس آفس میں ایک اور ہی دنیا کی لگ رہی تھی۔
افق کے چہرے پر تھکن تھیمگر آنکھوں میں کوئی رحم نہیں تھا۔
"یہ آخری وار ہے…"افق نے دھیرے سے خود سے کہاجیسے کسی جنگ کے میدان میں کوئی سپہ سالار کہے۔
مہَر چونکی۔"آخری وار؟ کس پر؟"
افق نے لیپ ٹاپ اس کی طرف گھمایا۔سکرین پر بڑی بڑی کمپنیوں کے نام تھے،نیچے نیٹ ورک میپس،بینک ٹرانزیکشنز،اور بیچ میں ایک ہی نام بار بار…
ایان۔
مہَر کے چہرے کا رنگ اڑ گیا۔"یہ… یہ سب تم پہلے کیوں نہیں بتایا؟"
افق کی آواز میں کوئی جذبات نہیں تھے:"کیونکہ مجھے تمہاری ہمدردی نہیں چاہیے تھی…مجھے تمہاری طاقت چاہیے تھی۔"
یہ جملہ مہَر کے سینے میں تیر کی طرح لگا۔
"افق…یہ سب بہت خطرناک ہے۔یہ لوگ طاقتور ہیں…وہ ہمیں… ختم بھی کر سکتے ہیں۔"
افق مسکرائی۔لیکن اس بار اس کی مسکراہٹ نرم نہیں تھی،اس میں برف تھی۔
"مہَر…جب انسان کو توڑنے کی اتنی کوشش کی جائےکہ وہ خود کو پہچاننا بھول جائے،پھر وہ خطرہ نہیں رہتا…وہ آفت بن جاتا ہے۔"
اس نے میز پر ہاتھ رکھا۔نقشے بکھر گئے۔
"اور میں اب آفت ہوں۔"
مہَر نے پہلی بارافق کو ایسے دیکھاجیسے کوئی اجنبی دیکھتے ہیں۔
"تم بدل گئی ہو…"
افق نے فوراً جواب نہیں دیا۔بس کھڑکی کے پاس گئی۔نیچے شہر جلتی ہوئی روشنیوں میں ڈوبا ہوا تھا۔
"نہیں مہَر…میں بدلی نہیں ہوں۔میں وہ بن گئی ہوں جو مجھے بننا پڑا۔"
مہَر کا دل کانپ اٹھا
"اور اگر اس راستے میں…تم خود بھی کھو گئی تو؟"
افق نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔اس کی آنکھوں میں عجیب سا سکون تھا۔
"تو کم از کممیں مظلوم نہیں مروں گی۔میں تاریخ بن کے مروں گی۔"
یہ سن کرمہَر کے ہاتھ کانپ گئے۔
اس لمحےاسے افق سے نفرت بھی نہیں ہوئی محبت بھی اور گہری ہو گئیمگر ایک چیز پہلی بار آئی…
ڈریہ سوچ کر کہاگر افق واقعی اس راستے پر چلتی رہیتو ایک دندنیا تو جھک جائے گی…
مگرمہَر…شاید افق سے دور ہو جائے۔
;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;
آفس کی چھت پر بارش کی بوندیں نرم شور کر رہی تھیں۔شیشے پر قطرے بہہ رہے تھے، جیسے وقت بھی رُوٹا ہو۔
مہَر اکیلی کانفرنس روم میں بیٹھی تھی۔سامنے فائلیں بکھری تھیں،لیکن ایک فائلجو اس کے ہاتھ میں تھیوہ باقی سب سے الگ تھی۔
اس پر لکھا تھا:
Project: Ufaq – Phase One
مہَر کی سانس بھاری ہو رہی تھی۔اس نے فائل کھولی۔
اندر کچھ تصویریں تھیں…یہ افق کی پرانی تصویریں تھیں۔پانچ سال پرانی۔
جب وہ اجڑی ہوئی سی گلی میںایک چھوٹے سے کمرے میں رہتی تھی۔جب اس کے ہاتھ میں نہ دولت تھینہ نام…صرف زخم تھے۔
اور آخری صفحے پر…ایک نام۔
ڈاکٹر حمزہ قریشی
اور نیچے لکھا تھا:
"Subject reacted abnormally after the incident. Emotional memory sealed partially."
مہَر کا ہاتھ کانپ گیا۔
"سیلڈ؟کاملاً؟"
اسے یاد آیاافق کبھی کبھی ماضی کی بات کرتے ہوئے کیوں خاموش ہو جاتی تھی۔اس کی آنکھوں میں کیوں وہ خلا سا آ جاتا تھا۔
یہ کوئی حادثہ نہیں تھا…
یہ کیا گیا تھا۔
افق کا چھپا ہوا زخم
دروازہ آہستہ سے کھلا۔افق اندر آئی۔
بارش کی ہلکی خوشبو اس کے ساتھ اندر آئی،لیکن اس کے چہرے پر موسم نہیں تھا۔
قہر تھا۔
"تمہیں یہ فائل کس نے دی؟"آواز خاموش تھی…لیکن زہریلی۔
مہَر نے فائل بند نہیں کی۔اس کی نظروں میں درد تھا۔
"افق…تم نے مجھ سے کہا تھاہماری کوئی دیوار نہیں ہو گیہماری کوئی جھوٹ نہیں ہو گا…"
افق نے میز پر ہاتھ رکھا۔فائل پر انگلی رکھی۔
"کچھ سچمحبت سے بھی چھپانا پڑتے ہیں۔"
مہَر کی آنکھیں نم ہو گئیں۔
"کیونکہ وہ سچ…انسان کو توڑ دیتا ہے۔"
افق نے سر جھکا لیا۔
مہَر نے آہستہ آہستہ کہا:
"پانچ سال پہلے…وہ رات…جو تم کہتی ہوحادثہ تھا…"
اس نے گہرا سانس لیا۔
"…وہ حادثہ نہیں تھا نا؟"
کمرے میں مکمل خاموشی چھا گئی۔
صرف بارش اور…افق کی سانس۔
"نہیں…"افق نے کہا۔"وہ منصوبہ تھا۔"
مہَر کے اندر جیسے زلزلہ آ گیا۔
"کس کا؟"
افق کی آنکھوں میں اندھیرا اور گہرا ہو گیا۔
"تو تم نے مجھے کیا سمجھا تھا افق؟"مہَر کی آواز لرزی۔"ایک ساتھی؟یا ایک مہرہ؟"
افق نے نظریں اٹھائیں۔
پہلی بار…اس کی آنکھوں میں خوف تھا۔
"میں نے تمہیں بچانا چاہا تھا…"
مہَر ہنس دی۔مگر اس ہنسی میں درد تھا۔
"اور اب؟اب تو تم خود طوفان بن چکی ہو۔"
افق کچھ نہیں بولی۔
مہَر نے آہستہ سے فائل اٹھائی۔اس کی طرف دیکھا۔
"اور اب یہ راز…میرے پاس نہیں رہے گا افق۔"
افق کی آنکھیں تیز ہو گئیں۔
"کیا مطلب؟"
مہَر نے مڑتے ہوئے کہا:
"کسی نے سچ کہا تھا…سب سے خطرناک دھماکہ وہ ہوتا ہےجو خاموشی سے پھٹتا ہے۔"
دروازہ بند ہو گیا۔
اور افق اکیلی رہ گئی۔خاموش۔لیکن پہلی بار…
غیر محفوظ۔
;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;
پانچ سال پہلے…وہ رات عام نہیں تھی۔
نہ موسم عام تھا،نہ وہ گلی،نہ افق کی زندگی۔
وہ اس رات ایک انٹرویو سے واپس آ رہی تھی—وہ انٹرویو جہاں اسے اس کے غریب ہونے، کمزور بولنے، اور "فٹ نہ ہونے" پر ٹھکرا دیا گیا تھا۔وہ بارش میں بھیگتی ہوئی موڑ پر پہنچی ہی تھی کہ اسے محسوس ہوا:کوئی اس کا پیچھا کر رہا ہے۔
شروع میں وہ وہم لگا،مگر قدموں کی آہٹ…بارش سے بھی دھیمی نہیں ہوئی۔
افق نے رفتار تیز کی—پھر دوڑنا شروع کر دیا۔
وہ پہلی بار تھاجب اسے لگاوہ واقعی اکیلی ہے۔
جس گلی میں وہ پہنچی وہاں روشنی کم تھی…خاموشی زیادہ۔
بارش کی ٹک ٹک کے علاوہ دنیا جیسے رک گئی تھی۔
اور پھر ہوا کا وہ جھونکا آیاجس نے بلب بجھا دیا۔
اُس لمحے افق نے وہ سایہ دیکھا—بالکل وہی /']]جو آج کھڑکی کے باہر بھی اُترا تھا۔بالکل ویسا ہی ہیولا…ویسی ہی خالی آنکھیں۔
مگر اصل حقیقت یہ تھی:
❗ وہ سایہ انسان تھا
کوئی روح، جن، یا وہم نہیں۔بلکہ ایک آدمی۔
اور اس کا نام تھا:
ڈاکٹر حمزہ قریشی
Eyan کا بڑا بھائی—اور ذہنی تجربات کا ماہر۔وہ انسان کی یادداشت کے سسٹم پر تجربے کرتا تھا۔خوف کو بڑھانے،یادیں مٹانے،دماغ کو reshape کرنے والے تجربات۔
افق اس کا اگلا "subject" تھی۔
کیوں؟
کیونکہ چند ہفتے پہلےحمزہ نے ایک presentation میں کہا تھا:
"طاقت کبھی باہر سے نہیں بنائی جاتی…اصل طاقت ہے اندر کا خوف۔اگر میں کسی انسان کی خوف والی یاد بدل دوں…تو وہ انسان میرے ہاتھ میں ہو گا۔"
وہ کسی ایسے انسان کو چاہتا تھاجس کے اندر "ناکامی، بھوک، خوف، بے بسی" سب ہو—تاکہ وہ اس کے دماغ میں implanted memories ڈال سکے۔
اور اسے "افق" اس تجربے کے لیے بہترین لگی۔کیونکہ وہ اکیلی تھی،ٹوٹ چکی تھی،اور کسی کو فرق نہیں پڑتا تھااگر وہ لاپتا ہوتی۔
🔻وہ رات اصل میں "جزوی یادداشت ختم کرنے" کا تجربہ تھا۔
حمزہ نے اسے زبردستی پکڑ لیا،اسے بے ہوش کیا،اور ایک abandoned کلینک میں لے گیا۔
وہاں:
اس کی آنکھوں پر روشنی ڈالی گئی
دماغ کے حصوں کی stimulation کی گئی
کچھ یادیں "freeze" کی گئیں
کچھ خوف "amplify" کیے گئے
افق نے چیخالڑاروئیالتجا کیمگر حمزہ کے چہرے پر صرفتجسس تھا…رحم کا ایک قطرہ بھی نہیں۔
اس نے کہا تھا:
"میں تمہیں زندگی نہیں لوں گا، افق۔میں تمہیں ہمیشہ کے لیے…بدل دوں گا۔"
اور وہ بدل گئی۔
اس رات کے بعد:
کچھ یادیں دھندلی ہو گئیں
کچھ ایسے دکھ بنے جو وہ بیان نہیں کر سکتی تھی
کچھ خوف اس کے اندر جڑ گئے
اور سب سے بڑھ کر:
❗ وہ رات اسے کبھی پوری طرح یاد نہیں آئی—
صرف سایہ…خالی آنکھیں…خاموش سانسیں…اور لفظ:
"یاد"
(ہاں یہ وہی سایہ تھا جو اسکی کہی کھرکی کے باہر تھا اور اُسنے ہوا میں اپنی انگلیوں سے "یاد" لکھا تھا ہاں )وہ اسکو بتانے کی کوشش کر رہا تھا کے وہ اپنی یادیں کھونے والی ہے
حمزہ اس تجربے کے بعد غائب ہو گیا۔اگلے ہفتے اس کی موت کی خبر آئی۔ایان نے تب سے اس رات کا پورا سچ چھپا لیا۔کیونکہ اگر دنیا کو پتہ چلتا کہ حمزہ نے کیا کیا—ایان کی پوری فیملی تباہ ہوجاتی۔اس کا باپ، اس کی ماں، اس کی بہن—سب کا کیریئر ختم ہو جاتا۔
ایان کے لیے یہ "بدنامی" ناقابلِ برداشت تھی۔اس نے افق کو رونے دیا،ٹوٹنے دیا،لیکن سچ چھپایا۔
اور وہ فائلجو مہر کو ملی—وہ حمزہ کی آخری تحقیق تھی:افق کا پورا کیس اسٹڈی۔
🔥 افق کی ڈارک سائیڈ اسی رات پیدا ہوئی تھی۔
وہ سچ میں"پاگل" نہیں ہوئی تھی۔مگر اس کے اندر ایک shadow version بن گیا تھاجو کبھی کبھی اس کے اندر سے باہر آتا ہے:بے رحم،خاموش،غصے سے بھرا ہوااور خوف سے نجات کے لیےکسی کو بھی مار دینے والا۔
یہی وہ side ہےجس سے مہر پہلی بار ڈری ہے۔
کیونکہ یہ سچ…یہ راز…
صرف خوفناک نہیں تھا—بلکہ خطرناک تھا۔
;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;
