…اور پھر اُس نے وہ چیز دیکھ لی…جس کے بارے میں اسے کبھی معلوم بھی نہیں ہونا تھا کہ وہ
حقیقت میں موجود بھی ہے۔
کھڑکی کے شیشے پر اس کی سانس جم چکی تھی۔اندر کی گرم ہوا اور باہر کی ٹھنڈک کے بیچاس کی نظریں بس ایک ہی جگہ پر جمی رہ گئیں۔
سامنے والے گھر کی چھت پرایک سایہ حرکت کر رہا تھا۔
نہ پورا اندھیرا…نہ پورا واضح۔
بس ایک جھلک…جیسے حقیقت کا کوئی ٹکڑاغلطی سے دکھائی دے گیا ہو۔
اُفق نے پلکیں جھپکائیں۔دوبارہ دیکھا۔وہ سایہ اب بھی وہیں تھا۔
لیکن اب وہ…حرکت نہیں کر رہا تھا۔
اب وہ اسے دیکھ رہا تھا۔
دل کی دھڑکن اچانک تیز ہو گئی۔اس نے خود کو سمجھایا:"یہ صرف وہم ہے… صرف اندھیرا ہے…"
مگروہ "وہم"پلک نہیں جھپکا رہا تھا۔
اُفق نے آہستہ سے پردہ کھسکایا،شاید وہ چیز غائب ہو جائے…شاید رات اپنی معمول پر واپس آ جائے…
لیکن پردہ ہٹاتے ہیجو منظر سامنے آیااس نے اس کی سانس روک دی۔
وہ سایہاب چھت پر نہیں تھا۔
وہ…نیچے صحن میں آ چکا تھا۔
اور اب…اس نے آہستہ سےسر اُوپر اُٹھایا…
..........
س نے سر اُوپر اُٹھایا تھا۔
اور اُفق کو لگا…جیسے وقت نے سانس لینا چھوڑ دیا ہو۔
چاندنی کمزور تھی،بس اتنی تھی کہ سائے کی حدیں پہچانی جا سکیں،مگر چہرہ نہیں۔
چہرہ…ابھی بھی اندھیرے میں تھا۔
وہ پیچھے ہٹی۔ایک قدم…پھر ایک اور…
مگر اس کی نظریںاب ہٹ ہی نہیں رہی تھیں۔
کیونکہ وہ سایہآہستہ آہستہآگے بڑھ رہا تھا۔
نہ اس کی آواز آتی تھینہ قدموں کی چاپنہ زمین پر کوئی لرزش۔
بس…اس کی موجودگی۔
ہوا میں ایک عجیب بوجھ اتر آیا تھا۔ایسا جیسے سانس بھی سوچ سمجھ کر لی جا رہی ہو۔
اُفق نے نظریں ہٹانے کی کوشش کی،کھڑکی بند کرنے کی…پردے گرانے کی…
لیکن اس کے ہاتھہل ہی نہیں رہے تھے۔
کیونکہ اسی لمحےوہ سایہاچانک رُک گیا۔
اور پہلی باراس نے ہاتھ اُٹھایا۔
سیدھا…کھڑکی کی طرف۔
نہ دھمکی…نہ اشارہ…بس ایک سادہ سا عمل…
جیسے وہ اسے بلا رہا ہو۔یا یاد دلا رہا ہو۔
اُفق کا دل جیسےپسلیوں کے اندر دیوار سے ٹکرا گیا۔
اسے یاد نہیں تھاکہ اس لمحے سے پہلےاس نے کبھیکسی انجان چیزکی اتنی موجودگیمحسوس کی ہو۔
اور پھر…
اس نے انگلی سےہوا میں کچھ لکھنا شروع کیا۔
نہ شیشہ تھانہ دھولنہ کوئی سطح…
پھر بھیاُفق کو وہ لفظصاف نظر آیا۔
صرف ایک۔
"یاد"
لیکن اُفق کو تویاد ہی نہیں تھاکہ وہ کس بات کو بھول چکی تھی۔
,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,
…وہ لفظ ابھی ہاتھ سے مِٹا بھی نہیں تھاکہ ہوا ذرا سی ٹوٹی۔
پردے نے ہلکی سی جنبش لی،جیسے کسی ہیں…جو ابھی ابھی گزرا ہو۔
اُفق نے سانس کھینچنے کی کوشش کی…مگر سینے میں ہوا جانے سے پہلےایک بھاری سی خاموشی اس پر آن گری۔
وہ سایہ اب بھی وہیں تھا۔لیکن اب ساکت نہیں تھا۔
وہ ہاتھجو ہوا میں لکھ رہا تھا…آہستہ آہستہ نیچے گرا۔
اور پہلی باراُفق نےاس کی آنکھیں دیکھیں۔
نہ سیاہ،نہ سفید…
بس… خالی۔
بالکل ویسےجیسے کسی یاد کی آنکھیں ہوتی ہیںجو برسوں سے کسی ذہن کے کسی کونے میںبند پڑی ہوں۔
اُفق کو جیسےاپنے بچپن کا کوئی ادھورا منظرآنکھوں کے سامنے سےخاموشی سے گزرتا محسوس ہوا۔
ایک گلی…ایک بند دروازہ…اور کسی کا نام…
جو ابھی یاد نہیں آ رہا تھا۔
لیکن وہ سایہ…اس نام کو جانتا تھا۔
وہ سر ذرا سا ایک طرف جھکا کراُفق کو دیکھتا رہا۔
کوئی نفرت نہیں۔کوئی غصہ نہیں۔صرف…انتظار۔
جیسے وہ برسوں سےاسی لمحے کا منتظر ہو۔
پھر اس نےآہستہ سا قدم پیچھے لیا۔
ایک…
پھر دوسرا…
لیکن اس کی نظریںاب بھی اُفق پر ہی تھیں۔
جیسے وہ جا نہیں رہا تھا…بلکہ…
اسے وقت دے رہا تھا۔
ایک لمحہ…یاد کرنے کے لیے۔
سمجھنے کے لیے۔
اور پھراندھیرا دوبارہاپنی جگہ پر آ گیا۔
مگر اب فرق یہ تھا کہاُفق کی آنکھوں میںاب اندھیرا نہیں تھا…
بلکہ ایک سوال تھا۔
ایسا سوالجو صرف اس کا نہیں تھا…
بلکہ اس کہانی کا اگلا دروازہ تھا۔
اور وہ دروازہاب…کھل چکا تھا۔
,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,
پانچ سال بعد…
شہر کی بلند ترین پہاڑی کے کنارے ایک گھر تھا۔
عام گھر نہیں۔نہ وہ جو صرف باہر سے بڑا لگے،اور اندر جا کر خالی محسوس ہو۔
یہ وہ گھر تھاجس میں دیواریں نہیںبلکہ فیصلے بولتے تھے۔
سفید پتھروں سے بنا ہوا۔ایسا سفید… جیسے صبح کا پہلا اجالاجو ابھی مکمل روشن نہ ہوا ہولیکن اندھیرے کو ماننے سے انکار کر دے۔
گیٹ تک پہنچنے کے لیےایک لمبی، خاموش سڑک تھیجس کے دونوں طرفنیلے پھولوں کی قطاریںبارش کے بعد کی مٹی کی خوشبو کوتھامے رکھتی تھیں۔
وہاں نہ کوئی شور تھا،نہ کوئی ہارن،نہ شہر کی بےچینی۔
بسخاموش وقار۔
دروازہ کھلتاتو سب سے پہلےاونچی چھتوں والا ہال نظر آتا۔
شیشے کی دیواریں،جن سے پورا شہرنیچے بچھا ہوا دکھائی دیتا تھا،جیسے کسی نے خلا کو قالین بنا دیا ہو۔
پردے اتنے ہلکےکہ ہوا انہیں چھوتیتو یوں لگتاجیسے کوئی یادسانس لیتی ہو۔
ہر چیز سادہ تھیمگر کسی عام سادگی کی طرح نہیں۔
یہ وہ سادگی تھیجو بہت کچھ برداشت کرنے کے بعد آتی ہے۔
گھر میں خاموشی ضرور تھیلیکن تنہائی نہیں۔
ہر کمرے میںکسی نہ کسی مشغولیت کی آوازیںآہستہ آہستہ بکھری رہتیں۔
کچن سے کبھیچائے کے ابالتے پانی کی ہلکی سی سیٹی،لان سے مالی کی دعا میں لپٹی سرگوشی،اوپر والے فلور سےقدموں کی نرم چاپ۔
یہ سب ثبوت تھےکہ گھر سانس لیتا ہے۔
سروینٹس تھے، ہاں…لیکن فاصلے نہیں تھے۔
ہر ایک کا انداز الگ،لیکن سب کی آنکھوں میںاس لڑکی کے لیےخاموش احترام۔
کیونکہ وہ مالکن نہیں تھی…
وہ مثال بن چکی تھی۔
اوپر والے فلور پرایک کمرہ تھاجس پر کوئی نام نہیں لکھا گیا تھا۔
نہ "آفس"،نہ " اسٹڈی"،نہ "پرائیویٹ"۔
وہ بس…اُس کا کمرہ تھا۔
وہاں ایک لمبی میز تھیجس پر فائلوں، نقشوں،کمپنی کے منصوبوںاور کمپیوٹر اسکرینز کا ہجوم رہتا…
لیکن کمرے کا سب سے نمایاں حصہوہ کھڑکی تھی۔
وہی کھڑکی…جس کے سامنے وہ اکثرخاموشی سے کھڑی رہتی۔
اب وہ پندرہ کی نہیں تھی۔
اب وہ بیس سال کی تھی۔
لیکن اُس کی آنکھوں میںوقت کا وزن تھا۔
صرف خوابوں کا نہیں…ذمہ داریوں کا بھی۔
نیچے شہر میںاس کی کمپنیوں کے ٹاور کھڑے تھے۔
شیشے، اسٹیل،اور آسمان کو چھوتے ہوئے خواب۔
لوگ کہانیاں بناتے تھےاس کے بارے میں۔
کوئی کہتا:"وہ خود کو مٹا کے اوپر پہنچی ہے۔"
کوئی کہتا:"وہ قسمت کی چوری ہے۔"
کوئی کہتا:"وہ سرد ہے، بےرحم ہے…"
مگر کوئی نہ جان پایاکہ اس کی خاموشی کے پیچھےکتنی چیخیں دفن تھیں۔
اس کا اپنا ایک مال تھا۔
شہر کا سب سے بڑا۔جہاں روشنی خود اسی سےاجازت لیتی تھی۔
برینڈز اس سے ڈرتے بھی تھےاور رشک بھی کرتے تھے۔
میٹنگز میںبڑے بڑے نام خاموش ہو جاتے تھےجب وہ بات شروع کرتی۔
نہ اونچی آواز…نہ سخت لہجہ…
صرف وہ لہجہجو فیصلہ ہوتا ہے۔
اور ان سب کے درمیانایک وجود ہمیشہ اس کے ساتھ تھا۔
مہر۔
اب وہ بھی بدل چکی تھی۔
اب اس کی آنکھوں میںوہی چمک تھیجو لڑائی کے دنوں میں ہوتی ہےلیکن اب وہ پختگی بن چکی تھی۔
وہ اُفق کی اسسٹنٹ نہیں تھی،نہ پارٹنر…
وہ اُس کی سانسوں کاغیر تحریری حصہ تھی۔
جب سب چلے جاتے،جب فائلیں بند ہو جاتیں،جب سارا شہر سست پڑ جاتا…
تو وہچائے کا کپ رکھتیاور خاموشی سےاس کے سامنے بیٹھ جاتی۔
نہ سوال،نہ شکایت،نہ ماضی کا ذکر۔
بس وہ خاموشیجو صرف وہی سمجھتی تھی۔
اور ان سب کے باوجود…
اُفق ابھی مکمل نہیں تھی۔
کچھ کمی تھی۔
کچھ ایساجو نہ پیسہ پورا کرتا تھانہ طاقتنہ شہرت۔
وہ اکثر رات کوکھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئےیوں محسوس کرتیجیسے کوئی راستہابھی کھلا ہی نہیں۔
جیسے پانچ سالصرف ایک دروازہ تھے…
اور اصل راستہابھی باقی تھا۔
اور اُس رات…
جب شہر نیچےاپنی روشنیوں میں ڈوبا ہوا تھا،
جب آسمان بہت قریب محسوس ہو رہا تھا،
جب مہر کمرے سے نکل چکی تھی…
اُفق نے میز پر پڑی فائلوں کے درمیانایک پرانا ساخالی لفافہ دیکھا۔
بغیر کسی نام کے۔
بغیر تاریخ کے۔
بس…ایک معمولی سا کاغذ۔
لیکنلفافے کے اندر سےہوا کچھ ایسے نکلیجیسے کوئی یادسانس لے رہی ہو۔
اور اُس نے آہستہ سےوہ لفافہ کھولا…
اور اندر…
وہ چیز رکھی تھیجس کے بارے میںوہ سمجھتی تھیکہ یہ سب بہت پیچھے رہ گیا ہے…
لیکن حقیقت یہ تھی…
یہ تواب شروع ہونا تھا۔
,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,
خوابوں کے پردے ابھی پوری طرح ہٹے بھی نہیں تھے کہ فضا میں ہلکی سی سنہری روشنی رِسنے لگی۔صبح کی ہوا آج عام دنوں کی طرح نہیں تھی… اس میں ایک عجیب سی خاموش کامیابی کی خوشبو تھی، جیسے رات نے ہار مان لی ہو اور دن نے آہستگی سے تاج پہن لیا ہو۔
آسمان ہلکے نیلے اور گلابی رنگوں کے درمیان جھول رہا تھا، سورج نے ابھی اپنی آنکھ پوری طرح نہیں کھولی تھی، بس اتنی روشنی تھی کہ دنیا جاگنے سے پہلے چند لمحے خود کو محسوس کر سکے۔ درختوں کی شاخیں ہلکی ہوا کے ساتھ سرگوشیاں کر رہی تھیں اور پرندے شاید آج بھی اس کی کامیابی کا جشن منا رہے تھے… حالانکہ انہوں نے کبھی اُس کا نام بھی نہیں سنا تھا۔
اور اسی خاموش، سنہری صبح میں…
اُفق جاگی۔
نہ کسی شور سے، نہ کسی الارم سے۔بس جیسے اس کا وجود خود سورج کی حرکت سے بندھا ہوا ہو۔
اس کا کمرہ کسی محل سے کم نہ تھا… مگر یہ وہ محل نہیں تھا جس میں سونے کی دیواریں ہوں اور چمکتی جھاڑ فانوس لٹکے ہوں۔یہ وہ محل تھا جو سکون سے بنا تھا۔
دیواریں ہلکے کریم اور راکھ جیسے رنگ میں ڈھلی تھیں، جیسے کسی مصور نے جان بوجھ کر چیختے رنگوں سے انکار کیا ہو۔کھڑکی فرش سے چھت تک تھی، اور اس سے باہر پورا شہر نظر آتا تھا — ایک شہر جو اب اس کے نام سے سانس لیتا تھا، حالانکہ وہ کسی کو یہ بات بتانا پسند نہیں کرتی تھی۔
اس کے بستر کی چادریں سفید نہیں تھیں…وہ ہلکے موو رنگ کی تھیں، جیسے شام کا آخری سایہ ہو۔تکیے نرم تھے، نہ بہت زیادہ لگژری، نہ عام…بالکل اُس کی شخصیت کی طرح: متوازن، مضبوط، خاموش۔
ایک طرف اُس کا پڑھنے کا کونا تھا —لکڑی کی ہلکی بھوری میز، جس پر دو تین کھلی کتابیں پڑی تھیں۔ایک فلسفے پر…ایک کاروبار پر…اور ایک خالی ڈائری — جس میں صرف چند سطریں لکھی ہوئی تھیں:
"خاموشی بھی ایک سلطنت ہوتی ہے،بس اسے چلانا آنا چاہیے۔"
اب آؤ…اُفق کو دیکھتے ہیں۔
وہ بستر پر سیدھی لیٹی تھی، بالکھلی آنکھوں کے ساتھ… جیسے وہ نیند سے اٹھی ہی نہیں تھی بلکہ نیند اس سے ہار کر پیچھے ہٹ گئی ہو۔
اس کی آنکھیں…گہری براؤن نہیں تھیں…وہ اس مٹی جیسے رنگ کی تھیں جو برسوں کی بارش کے بعد اور بھی زرخیز ہو جاتی ہے اسکی انکھوں کا رنگ teracotta تھا ۔ان میں چمک تھی… مگر شور نہیں تھا۔ایک ایسی روشنی جو چیختی نہیں، صرف موجود ہوتی ہے۔
اس کی پلکیں لمبی تھیں، مگر مصنوعی نہیں۔جیسے قدرت نے وقت لے کر اُنہیں تراشا ہو۔وہ پلکیں جو نہ صرف آنکھوں کو ڈھانکتی تھیں، بلکہ اس کے رازوں کو بھی۔
ناک چھوٹی نہیں…نہ بہت بڑی…بلکل درمیانی، لیکن اس پر ایک عجیب سا وقار تھا۔جیسے وہ صرف سانس لینے کا ذریعہ نہیں بلکہ ہوا کا بھی احترام کرتی ہو۔
ہونٹ…ہلکے گلابی… مگر کسی لپ اسٹک کی مرہون منت نہیں۔قدرتی رنگت…وہ مسکرائے تو ایسا لگتا تھا جیسے صبح کا پہلا اجالا مسکرا دیا ہو، اور جب خاموش رہتی… تو ایسے جیسے شام نے آنکھیں بند کر لی ہوں۔
اس کے ہاتھ…باریک انگلیاں، لمبی اور مضبوط۔وہ ہاتھ جو کبھی کمزور نہیں کانپے تھے، چاہے حالات طوفان کیوں نہ بن جائیں۔وہ ہاتھ جو اب کاغذوں پر دستخط کرتے تھے، فیصلے کرتے تھے، مگر کبھی کسی کا دل نہیں توڑتے تھے۔
اس کا قد درمیانہ تھا، مگر اس کی موجودگی…بہت بڑی تھی۔اتنی بڑی کہ وہ خاموش کھڑی ہو تو بھی کمرہ اُس سے بھر جاتا تھا۔
اور اب اُس کا لباس…
اُفق اب عام کپڑے نہیں پہنتی تھی۔اس کی ہر ڈریس… ایک کہانی ہوتی تھی۔
آج اُس نے ہلکے خاکی رنگ کا لانگ کوٹ پہنا۔اندر سفید سادہ کرتہ، مگر اُس کے کالر پر ہاتھ سے کی ہوئی باریک کشیدہ کاری تھی — وہ کشیدہ کاری جو کسی مشہور برانڈ کی نہیں، بلکہ اس کی اپنی کمپنی کے ایک چھوٹے یونٹ کی تھی۔وہ چاہتی تھی کہ اس کا ہر قدم کسی دوسرے کے لیے بھی راستہ بنے۔
اس نے ویسے تو جیولری کم پہنی تھی، مگر کلائی پر ایک سلور واچ تھی — سادہ، وزنی، وقت کو قابو میں رکھنے والی۔
بال…وہ اکثر کھلے رکھتی تھی۔لمبے، قدرتی، نہ زیادہ سلجے ہوئے نہ بکھرے ہوئے۔جیسے وہ انہیں جتانا نہیں چاہتی تھی… بس قبول کرنا چاہتی تھی۔
وہ آہستہ سے بستر سے اُٹھی۔پردے تھوڑے اور ہٹائے۔روشنی اندر گہری ہو گئی۔
اس نے ایک لمحے کو آنکھیں بند کیں…شاید وہ لمحے دکھائی دیے جن کا ذکر ابھی دنیا کو معلوم نہیں ہونا تھا۔شاید وہ راتیں…وہ جدوجہد…وہ چیخیں…جو اب صرف اس کے اندر محفوظ تھیں۔
پیچھے کمرے کے دروازے پر ہلکی سی دستک ہوئی۔
اور ایک جانی پہچانی مضبوط آواز آئی…
"اُفق… صبح ہو گئی ہے۔ آج کا دن ہمارے نام ہے۔"
یہ مہر تھی۔اس کی دوست… اس کی ساتھی… اس کے طوفان میں بندھی ہمت۔
اور نئی کہانی…اب واقعی شروع ہونے والی تھی…
,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,
صبح کے نرم اجالے کے ساتھ اُفق کا کمرہ خاموشی سے سانس لے رہا تھا۔وہ کھڑکی کے پاس چند لمحے کھڑی رہی، جیسے روشنی سے کوئی پرانا حساب چکتا کر رہی ہو… پھر آہستہ آہستہ کمرے سے باہر نکلی۔
اس کے گھر کا کچن عام گھروں جیسا نہیں تھا۔وہاں چمکتی ہوئی چیزیں کم تھیں، مگر سکون بہت تھا۔ہر چیز اپنی جگہ، ہر رنگ دبے ہوئے سفید اور خاکی شیڈز میں۔کوئی بے جا شور نہیں، کوئی ضرورت سے زیادہ سجاوٹ نہیں۔
ڈائننگ ٹیبل لکڑی کا تھا، گہرا بھورا، مضبوط…بالکل اُس کی زندگی کے فیصلوں کی طرح۔
وہ آ کر کرسی پر نہیں بیٹھی،چند لمحے بس کھڑی رہی،جیسے اپنے دن کو ذہن میں سیدھا کر رہی ہو۔
اس کا بریک فاسٹ بہت سادہ ہوتا تھا،کیونکہ وہ جانتی تھی کہ ضرورت اور نمود میں فرق کیا ہوتا ہے۔
سامنے پلیٹ میں:
براؤن بریڈ کے دو سلائس
ایووکاڈو اور ہلکی سی سفید پنیر کی تہ
ایک ابلا ہوا انڈا
اور کچھ کٹے ہوئے اسٹرابیری کے ٹکڑے
ساتھ ایک کپ ہلکی کافی…نہ زیادہ کڑوی، نہ زیادہ میٹھی۔بالکل اُس کی آواز کی طرح۔
وہ کھاتے ہوئے موبائل نہیں دیکھتی تھی۔نہ news، نہ سوشل میڈیا…وہ بریک فاسٹ کو صرف کھانا نہیں سمجھتی تھی۔وہ اُسے دن سے پہلے کا خاموش معاہدہ سمجھتی تھی۔
ہر نوالہ وہ آہستہ لیتی…جیسے جلدی میں بھی خود کو کھونا نہیں چاہتی ہو۔
اسی دوران مہر کچن میں آئی۔
"آج پھر سائلنٹ موڈ؟" مہر نے ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
اُفق نے نظر اٹھائے بغیر جواب دیا:"خاموشی سے دن لمبا چلتا ہے… شور سے بس جلدی تھک جاتا ہے۔"
اس نے کافی کا آخری گھونٹ لیا۔پلیٹ کو خود اٹھا کر سنک میں رکھا۔کیونکہ وہ کبھی نہیں چاہتی تھی کہ چھوٹی چھوٹی چیزیں بھی اس کے لیے کوئی اور کرے۔
اور پھر ایک لمحے کو رکی…اپنی انگلی کے پچھلے حصے سے کافی کے کپ کو چھوا…جیسے خود کو یاد دلایا ہو کہ…
وہ یہ سب عادت سے نہیں،شکر سے کر رہی ہے۔
,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,
فق کے لیے تیار ہوناکوئی جلدی میں کیا گیا عمل نہیں تھا…یہ ایک خاموش ترتیب تھیجس میں وہ خود کو نئے دن کے حوالے کرتی تھی۔
وہ شیشے کے سامنے نہیں رکتی تھی،وہ آئینے سے بات نہیں کرتی تھی…بس خود کو دیکھتی تھیجیسے کوئی پرانا زخم دوبارہ نہ کھلے،بس یقین بن جائے کہ سب ٹھیک ہے۔
اس کی پلکیں لمبی تھیں…اتنی لمبی کہ کبھی کبھی ایسا لگتاجیسے آنکھوں کے کناروں پرکوئی خاموش پردہ ڈال دیا گیا ہوجو دنیا کو کم دکھائےاور دل کو زیادہ۔
وہ آنکھیں نرم نہیں تھیں…وہ گہری تھیں۔آسمان سے اتری ہوئی کوئی گہرائی،جو دور سے خاموش لگےمگر پاس آ کر انسان کو بے چین کر دے۔
اُس نے آج سنہری روشنی میںاپنے بالوں کو ہاتھ سے بس ذرا سا سنوارا۔
وہ کبھی اپنے بال نہیں باندھتی تھی…کیونکہ اُسے لگتا تھاکہ اس کے بال اس کے ماضی کی طرح ہیں—اگر باندھ لو تو بھی بکھرنے کو تیار،اور اگر کھلے چھوڑ دوتو بھی صرف اُسی کے قابو میں۔
اس کے لمبے، قدرتی سیاہ بالاس کے کندھوں پر ایسے گرتے تھےجیسے رات آہستگی سے زمین کو چھو رہی ہو۔
وہ آج ایک سادہ مگر شاندار لباس میں ملبوس تھی۔
ہلکا سا آئس بلیو رنگ…نہ بہت شوخنہ بہت مدھمبالکل اُس کی طرح…جو چیختی نہیں تھیمگر محسوس ضرور ہوتی تھی۔
سوٹ کا کٹ بالکل سیدھاجیسے اس کی سوچ —بغیر گھماؤ، بغیر بناوٹ۔
آستینوں پر ہلکی سی سلور کار رکھی تھیجو ہر حرکت پر ہلکی سی چمک دیتیجیسے وقت بھی اُس کی قیمتی حرکات کو سراہ رہا ہو۔
چہرے پر وہی ہلکا سا میک اپ…ٹون درست کرنے کے لیے تھوڑا سا بیسپلکوں پر ہلکی سی کاجل کی لکیرجو اس کی لمبی پلکوں کو اور نمایاں کر دے۔
ہونٹوں پر نیوڈ گلابی رنگ…ایسا جیسے اس کی خاموشی کو صرف اتنا رنگ چاہیےکہ دنیا سمجھےوہ زندہ ہے…مگر موجود بھی۔
اس نے جوتے پہنے…سادے، مگر بے حد سلیقے والے۔اونچے نہیں —کیونکہ وہ لوگوں پر اونچی ہو کر نہیںاپنے مقام سے بلند ہو کر چلنا پسند کرتی تھی۔
اور پھر…وہ دروازے کے پاس آ کر رکی۔
صرف لمحے بھر کے لیے۔
یونہی،جیسے کسی ان دیکھی چیز سےخاموش وعدہ لینا ہو۔
پھر اُس نے اپنے کھلے بالوں کو ہلکا سا جھٹکا دیااور باہر قدم رکھ دیا۔
اس کے قدموں میں آواز نہیں تھی…مگر اثر تھا۔
اور کوریڈور کے خاموش فرش پراس کے قدموں کی بازگشتکسی ان کہی کہانی کا آغاز لگ رہی تھی۔
;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;
کمپنی عمارت نہیں تھی…یہ اُس کی خاموش جنگوں کا مجسمہ تھی۔
شہر کے ایک ایسے حصے میں واقعجہاں سڑکیں صرف گاڑیوں کے لیے نہیںخوابوں کے گزرنے کے لیے بھی بنی ہوتی ہیں۔
شیشے کی بلند عمارت…آسمان کے سینے سے بات کرتی ہوئی —مگر نیچے زمین سے جُڑی ہوئی۔
اس کی دیواریں عام شیشہ نہیں تھیں،وہ شفاف آئینے تھیںجن میں ہر گزرنے والااپنا عکس دیکھےاور لحظہ بھر کو سمجھےکہ کیا وہ بھی ایسا بن سکتا ہے؟
دروازے پر کوئی بھاری نقش نہیں تھا…بس ایک سادہ سا لوگو،جس کے نیچے لکھا تھا اس کا نامنہ بہت بڑانہ بہت چھوٹاجیسے وہ خود۔
صبح کے وقتسورج کی روشنیعمارت کے شیشے سے ٹکرا کرزمین پر سنہری راستہ بناتی تھیجیسے خود روشنی بھی جانتی ہوکہ آج پھر اُس کی دنیا میں داخل ہو رہی ہے۔
جب اُفق اندر داخل ہوئی…
ماحول بدل گیا۔
نہ کسی نے شور مچایانہ کسی نے تالیاں بجائیںمگر سب سیدھے ہوگئے۔
ایسا احترامجو بولے بغیر ادا ہوجو ڈر سے نہیںوقار سے جنم لے۔
ریسیپشن پر کھڑی لڑکی نے مسکراتے ہوئے کہا،"Good morning, Ma'am."
اور یہ الفاظاب عام سلام نہیں تھےیہ ایک تصدیق تھےکہ ہاں…یہ وہی ہے۔
وہ جس انداز سے چل رہی تھیوہ کوئی عام چلنا نہیں تھا…وہ اپنی بنائی ہوئی دنیا میںاپنی ہی لکھی ہوئی زمین پرقدم رکھ رہی تھی۔
اس کے گرد شیشے کی دیواروں سے بنے کیبنجیسے ذہنوں کے شفاف خانے تھے۔ہر ایک کے اندر کوئیاپना مستقبل لکھ رہا تھا۔
کسی کے ہاتھ میں فائل تھیکسی کے سامنے لیپ ٹاپکسی کے کان میں ایئرفون…لیکن سب کی نظریںلا شعوری طور پراسی طرف اُٹھتی تھیںجس طرف وہ گزرتی تھی۔
کیونکہ اُس کے گزرنے سےدفتر میں ہوا بدلتی تھی۔
وہ کسی کی تعریف نہیں کرتی تھی فوراً…اور کسی کی غلطی پر چیختی بھی نہیں تھی۔
بس سنتی تھی۔
اور اُس کا سنناایسا ہوتا تھاجیسے وقت رُک گیا ہواور سامنے والااپنے لفظوں کا وزن خود محسوس کرنے لگ جائے۔
میٹنگ روم میں داخل ہوتے ہیشیشے کے دروازے خود بخود بند ہوگئے۔
حلقہ بنا ہوا تھا۔سینئر منیجرز…مارکیٹنگ ہیڈ…فنانس ڈائریکٹر…سب موجود تھے۔
ایک لمحے کو خاموشی ہوئی۔
پھر ایک ہلکی سی ساؤنڈ…جب اس نے کرسی پیچھے کی۔
وہ بیٹھ گئی۔
نہ غرور کے ساتھنہ تھکن کے ساتھبلکہ ایسے…جیسے یہ کرسی نہیںاس کی ذمہ داری ہو۔
اس کے سامنےپروجیکٹر کی سفید روشنی پھیلی ہوئی تھیاور دیوار پر گرافز چل رہے تھے۔
نمبرز…فگرز…پروجیکٹس…پرافٹس…
لیکن اُس کی نظران گرافز پر نہیں تھی۔
وہ اُن چہرون پر تھیجو ان سب کے پیچھے سانس لے رہے تھے۔
"ہم صرف بزنس نہیں بنا رہے…"وہ آہستہ بولی،"ہم لوگ بنا رہے ہیں، جو خود اپنے قدموں پر کھڑے ہوسکیں۔"
اس کے الفاظکوئی تقریر نہیں تھےیہ اُس کی سوچ کا عکس تھے۔
کچھ لمحےکمرے میں مکمل خاموشی رہی۔
پھر سب نے نوٹس لیےسر ہلائےبریفنگ شروع ہوئی۔
مگر حقیقت میںوہ صرف ہدایات نہیں دے رہی تھی…
وہ اپنی ہی ماضی کی تھکی ہوئی لڑکی کوایک بہتر دنیا تحفہ دے رہی تھی —ہر اُس لڑکی کوجو کبھی خود سے ہارنے کے قریب تھی۔
اور اس عمارت کے بیچوں بیچکھڑی یہ دنیاکسی خواب کا تسلسل نہیں تھی…
یہ ثبوت تھیکہ کچھ خوابآخرکار جھکتے نہیںوہ خود جگہ بنا لیتے ہیں۔
;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;
رات گہری تھی…دفتر کی عمارت آدھی نیند میںآدھی جاگتی۔
اوپر والی فلور پرصرف ایک کمرہ روشن تھا۔
اُفق کا۔
پورا شہر سو رہا تھااور وہ…شہر کی سانسوں کا حساب کر رہی تھی۔
اس کے سامنے فائلیں نہیں تھیںبلکہ راز تھے۔
وہ رازجنہیں کچھ لوگزمین کے نیچے دفن سمجھتے تھےمگر بھول گئے تھےکہ کچھ سچمٹی کے اندر بھی سانس لیتے رہتے ہیں۔
اسی لمحےاس کا فون وائبریٹ ہوا۔
نام… اسکرین پر نہیں آیا۔
وہ مسکرائی۔کیونکہ اُسے معلوم تھاجو نام نہیں دیتےوہ خود کو خدا سمجھتے ہیں۔
فون کان سے لگاتے ہیسامنے سے آواز آئی:
"تمہیں اتنی بڑی فائل میں ہاتھ نہیں ڈالنا چاہیے تھا…"
ایک لمحے کو خاموشی چھا گئی۔مگر فون پر نہیں…فضاء میں۔
پھر اُس نے آہستہ سے کہا:
"میں ہاتھ نہیں ڈالتی…میں فائل بند کرتی ہوں۔"
سامنے سے ہلکا سا قہقہہ آیا۔
"تم بہت آگے نکل گئی ہو، اُفق۔کچھ لوگ یہ پسند نہیں کرتے…"
اُس کی آنکھوں میںکوئی خوف نہیں اُبھراصرف… ایک ٹھنڈی سی روشنی آئی۔
"لوگوں کی پسند ناپسند سےاگر دنیا چلتیتو آج بھیسچ دیوار کے پیچھےاور جھوٹ تخت پر بیٹھا ہوتا۔"
دوسری طرف خاموشی تھی۔
پھر وہی آواز…اب ذرا سخت۔
"تمہیں پتا ہےتم کس لائن پر چل رہی ہو؟"
اُفق نے کرسی سے ٹیک لگائی۔شیشہ کھڑکی کے پارپورا شہر اس کے پیروں کے نیچے تھا۔
"ہاں…"اس نے کہا،"وہ لائنجس کے دوسری طرفتم کھڑے ہو۔"
فون کٹ گیا۔
کمرے میں خاموشی پھیل گئی۔
لیکن وہ نہیں ہلی۔
بلکہ اس نے ایک بٹن دبایا۔
شیشے کی دیوار کے دوسری طرفمہر کھڑی تھی۔
نہ گھبراہٹنہ سوال۔
بس آنکھوں میں ایک ہی بات:تم کہو کیا کرنا ہے؟
اُفق نے صرف اتنا کہا:
"وہ لوگسمجھ رہے ہیںکہ میں اکیلی ہوں۔"
مہر کی ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ آئی:
"انہیں غلط فہمیوں سےبہت پیار ہے۔"
اُفق اُٹھی۔لمبے قدموں سےکھڑکی کی طرف گئی۔
نیچے روشن سڑکیںاوپر خاموش آسمان…
اور درمیان میںوہ۔
نہ روشنی کا حصہنہ اندھیرے کا۔
"کھیل اب شروع ہوا ہے…"وہ بہت آہستہ بولی،"اور جو شروع میں ہنستے ہیںآخری میں نام لے کر نہیں…سانس لے کر یاد کرتے ہیں۔"
کمرے کی لائٹ بند ہوئی۔
لیکن شہر میں ایک نئی روشنی جلنا شروع ہوگئی۔
.;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;
فق نے جب خود کو چُنا تھا تو یہ کوئی عام سا فیصلہ نہیں تھا، یہ ایک بغاوت تھی۔ اپنے ہی خلاف، اپنے ہی جذبات کے خلاف، اپنے ہی کمزور لمحوں کے خلاف۔ وہ جانتی تھی کہ اگر اُس دن اُس نے خود کو نہ چُنا، تو پھر ساری زندگی دوسروں کے سائے میں جیتی رہ جائے گی۔اور اُفق سایہ بننے والوں میں سے نہیں تھی… وہ تو آگ تھی، وہ تو دھوپ تھی، وہ تو خود ایک اُفق تھی جو حدوں کو مٹانے آئی تھی۔
اس نے اپنے احساسات کو دفن کر دیا۔مگر یہ دفنانا کمزوری نہیں تھا… یہ ایک تدفین تھی، جیسے بادشاہ مرنے کے بعد اپنے تاج کو بھی ساتھ دفن کر دیتا ہے تاکہ کوئی غلط ہاتھ اُسے پہن نہ سکے۔اُفق نے اپنا دل بھی اسی لیے دفنایا، تاکہ کوئی معمولی انسان اُس پر حکومت نہ کر سکے۔
وہ خود کو دل سے خالی سمجھتی ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ دل صرف اُنہی کے اندر ہوتا ہے جو زیادہ دیکھ چکے ہوں، زیادہ سہے ہوں، اور زیادہ ٹوٹے ہوں۔کیونکہ جنہوں نے کبھی ٹوٹنے کا ذائقہ نہیں چکھا، وہ دل کے معنی بھی نہیں سمجھ سکتے۔
اُفق مضبوط ہے…مگر یہ طاقت وراثت میں نہیں ملی،یہ طاقت آنسوؤں سے گوندھ کر بنائی گئی ہے، خاموش راتوں میں، تنہا لمحوں میں، اور اُن خوابوں کی قبروں کے پاس جو کبھی پورے نہ ہو سکے۔
وہ جانتی ہے کہ پورا شہر اُسے جانتا ہے۔مگر وہ اس بات پر فخر نہیں کرتی، نہ اسے ضرورت پڑتی ہے اپنی پہچان کو جتلانے کی۔کیونکہ کچھ لوگ شور مچاتے ہیں پہچانے جانے کے لیے،اور کچھ لوگ خاموش ہوتے ہیں… مگر اُن کی خاموشی ہی شہر ہلا دیتی ہے۔
اُفق ان خاموش لوگوں میں سے ہے۔جو مسکراتی کم ہے، دیکھتی زیادہ ہے۔جو بولتی کم ہے، مگر جب بولے تو لفظ بھی وزن رکھتے ہیں۔جو روتی نہیں سب کے سامنے، بلکہ اپنے آنسو بھی چھانٹ کر بہاتی ہے۔
اسے ہارنا پسند نہیں۔اور یہ بات صرف مقابلوں تک محدود نہیں، زندگی میں بھی۔وہ ہار سے ڈرتی نہیں، مگر ہار کو قبول بھی نہیں کرتی۔وہ سمجھتی ہے کہ جو ہار کو گلے لگا لے، وہ خود کو آہستہ آہستہ دفن کرنے لگتا ہے۔اور اُفق خود کو دفن کرنے نہیں، خود کو گڑھے سے نکالنے والوں میں سے ہے۔
وہ کبھی خود پر ترس نہیں کھاتی۔وہ آسمان کو دیکھ کر شکوہ نہیں کرتی۔وہ تقدیر کو کوستی نہیں۔بلکہ تقدیر کو آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہتی ہے:"لکھ تو ویسے بھی تو نے میرے خلاف رکھا ہے، اب دیکھ میں کتنی مضبوطی سے اُس کو غلط ثابت کرتی ہوں۔"
اور یہی بات اُسے عام لڑکیوں سے الگ کرتی ہے۔وہ کسی ہیرو کی منتظر نہیں،وہ کسی سہارے کی بھوکی نہیں،وہ کسی کے الفاظ پر اپنی بنیادیں نہیں رکھتی۔
وہ خود اپنی دیوار ہے، خود اپنی چھت، خود اپنی پناہ گاہ۔
لوگ کہتے ہیں وہ بے حس ہو چکی ہے…مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ اب حساس ہونے کا نقصان سمجھ چکی ہے۔وہ جان چکی ہے کہ ہر کسی کے درد کو اپنا درد بنانا خود کو آہستہ آہستہ ختم کرنے کے برابر ہے۔
اُس نے سیکھ لیا ہے کہ ہر کسی کو سمجھنا فرض نہیں،ہر کسی کو معاف کرنا بھی ضروری نہیں،اور ہر کسی کے لیے خود کو قربان کرنا تو بلکل بھی نہیں۔
اُفق نے خود کو چُنا کیونکہ اُس کو پتا تھا،اگر وہ خود کو چھوڑ دے… تو اُس جیسوں کو کوئی نہیں بچائے گا۔
اور آج بھی، جب وہ چلتی ہے، تو زمین ہلتی نہیں، مگر احساس ضرور ہل جاتا ہے۔لوگ اُسے دیکھ کر وُہسپر کرتے ہیں،کچھ اُسے غرور سمجھتے ہیں،کچھ اُسے تکبر…مگر کسی میں ہمت نہیں کہ اُس کی آنکھوں میں دیکھ کر اُس سے جھوٹ بول سکے۔
کیونکہ اُس کی آنکھوں میں آگ نہیں،سچائی ہے۔اور سچ ہمیشہ تکلیف دیتا ہے۔
اُفق کو فرق نہیں پڑتا کہ کون سمجھا، کون نہیں۔وہ جانتی ہے، وقت سب کو خود ہی بتائے گاکہ وہ لڑکی دل سے خالی نہیں تھی…وہ بس دل کو محفوظ رکھنے کا ہنر سیکھ چکی تھی۔
اور جو لوگ اُسے ہرانے آئے تھے…وہی لوگ آج اُس کا نام لے کر خود کو مضبوط محسوس کرتے ہیں۔
کیونکہ اُفق صرف ایک نام نہیں،وہ ایک خیال ہے،وہ ایک زلزلہ ہے،وہ ایک خاموش طوفان ہے،اور وہ اُن لوگوں کے لیے وارننگ ہےجو کمزور کو کمزور سمجھ لیتے ہیں۔
;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;
۔وہ صبح عام نہیں تھی۔نہ آسمان کا رنگ عام تھا، نہ ہوا کی چال۔سورج آہستہ آہستہ اُفقِ شہر سے اُبھرا، جیسے خود اُفق کسی نئے فیصلہ کن جنگ کے لیے جاگ رہی ہو۔
ہوا میں ہلکی سی سرد مہری تھی، مگر اُس میں ایک عجیب سی تازگی بھی شامل تھی…جیسے قدرت خود اُس دن کو خاص بنانے آئی ہو۔
اُفق کی کھڑکی کے پردے ہلکے ہلکے ہل رہے تھے۔ہوا اندر آ کر اس کے کمرے کو چھو رہی تھی،جیسے کوئی پرانی دوست خاموشی سے اُسے جگانے آئی ہو۔
وہ جاگ چکی تھی۔خاموشی کے ساتھ۔بغیر کسی آہ کے۔بغیر کسی شکایت کے۔
اُفق کا چہرہ اب پہلے جیسا نہیں رہا تھا…وہ معصومیت جو کبھی اس کی آنکھوں میں جھلکتی تھی،اب تجربے میں بدل چکی تھی۔
اس کی آنکھیں…لمبی پلکوں کے سائے میں چھپی ہوئی آنکھیں…جو صرف دیکھتی نہیں تھیں، پرکھتی بھی تھیں۔وہ آنکھیں جن میں اب بھی روشنی تھی،لیکن اب وہ روشنی نرم نہیں، تیز تھی —جیسے کسی تلوار کی دھار۔
ہونٹ ہلکے گلابی، مگر اب مسکراہٹ کم رہتی تھی وہاں۔نہ کہ وہ مسکرانا بھول گئی تھی،بلکہ اس نے سیکھ لیا تھا کہ ہر مسکراہٹ سستی انرجی ضائع کرتی ہے۔
اس کا چہرہ اب درد کا نقشہ نہیں رہا تھا،بلکہ فتح کا اعلان بن چکا تھا۔
اُس دن اس نے ایک نئے رنگ کا لباس پہنا۔گہرا نیلا — جیسے سمندر کی گہرائی۔سادہ مگر شاہانہ۔اس کے لباس میں کوئی شو آف نہیں تھا،مگر ہر سلائی میں خودداری چھپی ہوئی تھی۔
اس کے بال، حسبِ عادت کھلے تھے…لمبے، سیاہ، ہلکی لہروں کے ساتھجو اس کی پشت پر خاموشی سے بہہ رہے تھے جیسے کوئی سیاہ آبشار۔
وہ آئینے کے سامنے کھڑی ہوئی۔اس نے خود کو دیکھا۔اور آج پہلی بار،اس نے اپنے اندر کوئی خلاء محسوس نہیں کیا۔
مگر قسمت خالی دن شاید ہی کبھی دے۔
جیسے ہی وہ باہر نکلنے کے لیے تیار ہوئی،فون پر ایک نوٹیفکیشن چمکا۔
"CONGRATULATIONS — NEW PROJECT APPROVED."
نئی کامیابی۔نیا سنگِ میل۔نئی پہچان۔
مگر اس نوٹیفکیشن کے ساتھ ہی ایک اور میسج آیا:
"Be careful. Not everyone claps when you rise."
اُفق کی پلکیں ایک پل کے لیے رُکیں…مگر اس کا ہاتھ نہیں کانپا۔
وہ جان چکی تھی،کامیابی کے ساتھ ہمیشہ حسد بھی پیدا ہوتا ہے،اور جہاں روشنی ہو، وہاں سائے خود چل کر آتے ہیں۔
وہ آج صرف ایک دفتر نہیں جا رہی تھی…وہ ایک میدانِ جنگ کی طرف بڑھ رہی تھی۔
کیونکہ آج اُس کی کمپنی میں ایک نیا شخص آ رہا تھا۔نیا پارٹنر۔نیا دماغ۔نیا دشمن… شاید۔
شہر کی ایک بڑی انویسٹمنٹ کمپنی کا وارث۔ذہین۔چالاک۔اور… حد سے زیادہ خاموش۔
اس کا نام تھا: ایان سہیل
اور لوگ کہتے تھے:یہ آدمی مسکراتا ہے مگر سوچتا بجلی کی رفتار سے ہے۔
اُفق نے نام سنا تو بس ایک پل کی خاموشی اختیار کی۔اس کے ہونٹوں پر معمولی سا ہلکا سا خد و خال آیا،جیسے تقدیر کو چیلنج کر رہی ہو۔
"دشمن اگر مضبوط ہو تو مزہ آتا ہے،"اس نے دل میں سوچا،"ورنہ جیت بھی بے مزہ ہوتی ہے۔"
اس نے دروازہ کھولا۔اور گھر سے باہر قدم رکھا۔
یہ صرف گھر کے باہر جانا نہیں تھا…یہ آج ایک نئے طوفان کی طرف جانا تھا۔
ایک ایسا طوفان جس میں دشمن بھی ہوگا،حاسد بھی،اور شاید…کوئی ایسا انسان بھی جس جو اس کے دل کے مدفون حصے کو ہلانے کی جسارت کرے۔
مگر اُفق اب وہ نہیں تھی جو ہل جاتی۔وہ اب وہ تھی…جو طوفان کے بیچ میں کھڑی ہو کر کہتی ہے:
"آؤ، اب دکھاؤ… تم میں کتنا زور ہے
;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;
سورج اب پوری طرح جاگ چکا تھا۔شہر کی سڑکوں پر ٹریفک کا شور پھیل رہا تھا، جیسے ہر گاڑی اپنی منزل سے پہلے اپنی ضد ثابت کرنا چاہتی ہو۔اور بیچ اِسی بے ہنگم دنیا میں…ایک سیاہ شیشوں والی گاڑی آہستگی سے سردمہری سے شہر کو چیرتی ہوئی اُفق کی کمپنی کی جانب بڑھ رہی تھی۔
ڈرائیور خاموش تھا۔گاڑی کے اندر خاموشی بھری ہوئی تھی،مگر یہ خاموشی سُستی نہیں تھی…یہ خاموشی طوفان سے پہلے کا سکوت تھا۔
اُفق کھڑکی سے باہر دیکھ رہی تھی۔شہر…وہی شہر جو ایک وقت اُس کے خوابوں سے بڑا تھا،آج اس کے قدموں کے نیچے تھا۔
مگر اس کی آنکھوں میں فاتحوں والی خوشی نہیں تھی۔بلکہ حکمرانوں جیسا سکون تھا۔وہ جانتی تھی…اصل جنگ ہمیشہ تاج ملنے کے بعد شروع ہوتی ہے۔
گاڑی کمپنی کے گیٹ کے سامنے رُکی۔
بہت بڑا گیٹ تھا۔سیاہ اور سنہری رنگ کا ملاپ۔نام چمک رہا تھا UFAQ ENTERPRISES
اور اس نام کے نیچے ایک جملہ لکھا تھا:
"We Don't Follow Paths — We Create Them."
گاڑی کا دروازہ کھلا۔اُفق باہر آئی۔
ہوا نے اس کے بالوں کو ہلکا سا چھوا،جیسے پرانی یادیں چھونے کی اجازت مانگ رہی ہوں۔
اس کے قدم نرم تھے،مگر ہر قدم زمین پر اپنی مہر چھوڑ رہا تھا۔
سامنے پورا اسٹاف قطار کی صورت کھڑا تھا۔نہ زیادہ خوشی، نہ دکھاوا۔انہوں نے سر جھکایا۔
یہ احترام کا شور نہیں تھا…یہ اُس خوف کا سکوت تھاجو صرف طاقتور لوگوں کے نصیب میں آتا ہے۔
وہ اندر داخل ہوئی۔
کمپنی کا اندرونی ماحول شیشوں، روشنیوں اور ترتیب کا ایک عجیب امتزاج تھا۔ہر چیز جگہ پر تھی۔ہر چیز کنٹرول میں…کم از کم دیکھنے میں۔
لیکن کنٹرول سب سے پہلے وہاں ٹوٹتا ہےجہاں نیا ذہن داخل ہو۔
اُفق ابھی چند قدم چلی ہی تھیکہ سامنے سے کسی کے قدموں کی ہلکی سی آواز آئی۔
نہ تیزی۔نہ ہڑبڑاہٹ۔نہ خود کو نمایاں کرنے کی کوشش۔
صرف ایک موجودگی۔
ایک خاموش طاقت۔
اُفق نے نظر اٹھائی۔
سامنے کالا کوٹ…سفید شرٹ…بغیر ٹائی کے…سادہ… مگر خطرناک وقار کے ساتھ۔
چہرہ صاف۔داڑھی ہلکی۔نظریں گہری، جیسے وہ صرف سامنے نہیں دیکھتا…بلکہ لوگوں کے اندر تک پڑھتا ہو۔
وہ رُکا۔محض ایک لمحے کے لیے۔
پھر ہلکی سی مسکراہٹ،جو مکمل نہیں تھی،بس اتنی کہ پہچانی جا سکے۔
"مس اُفق،"اس نے آہستہ کہا،"اُمید ہے آپ کو میرا نام یاد ہو گا۔"
اُفق نے زیادہ ردِعمل نہ دیا۔صرف سرد نظروں سے اُسے دیکھا۔
"نام اہم نہیں ہوتے،"وہ بولی،"اہمیت رویوں کی ہوتی ہے۔"
ایک پل کو کمرے کی ہوا بھی ساکت ہو گئی۔
ایان سہیل نے سر ذرا سا جھکایا۔
"پھر لگتا ہے،ہم دونوں رویوں پر بات کریں گے…ناموں پر نہیں۔"
یہ جملہ عام نہیں تھا۔یہ چنگاری تھی۔
اور اُفق کو چنگاریوں سے ڈر نہیں لگتا تھا۔وہ آگ سے بنی تھی۔
وہ چل دی —بغیر رکے،بغیر پلٹے۔
مگر اس کے قدموں میں ذرا سی سختی آ چکی تھی۔
وہ جان گئی تھی…یہ شخص صرف پارٹنر نہیں،یہ آنے والا طوفان ہے۔
کانفرنس روم میں داخل ہوتے ہی بورڈ میٹنگ شروع ہوئی۔
تمام بڑے سرمایہ کار۔تمام بڑے دماغ۔سب نظریں اُفق پر۔
لیکن آج نظریں دو تھیں جو نہیں جھک رہیں تھیں۔
ایک اُفق کی…اور دوسری آین سہیل کی۔
سہیل نے فائل ٹیبل پر رکھی،اور سیدھے بولنا شروع کیا:
"میں آپ کو سرمایہ نہیں دے رہا،میں آپ کو ایک جنگ دے رہا ہوں…کیونکہ اس انڈسٹری میں جو ساکت رہے، وہ مٹ جاتا ہے۔"
کمرے میں ہلکا سا سرگوشیوں کا شور آیا۔
اُفق نے کرسی سے ذرا سا پیچھے ٹیک لگا لی۔
"اور جو زیادہ بولے…"وہ بولی،"وہ اکثر جلدی تھک جاتا ہے۔"
چند لوگوں کے چہرے زرد پڑ گئے۔چند مسکرا دیے۔
مگر آین سہیل…
مسکرایا نہیں۔
بلکہ آنکھوں میں ایک ہلکی سی چمک ابھری۔
جیسے اُسےبالکل وہی ملا ہوجس کی وہ تلاش میں تھا۔
ایک برابر کا دشمن۔ایک برابر کا دماغ۔ایک برابر کی آگ۔
اور اُفق جانتی تھی…
اصل مشکلات ہمیشہ انسان کے روپ میں آتی ہیں۔
مگر ابھی نہیں…
ابھی تو جنگ شروع ہوئی ہے۔
اور اُفق…جنگ کے پہلے دن کبھی مسکرایا نہیں کرتی۔
;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;
بورڈ روم خالی ہو چکا تھا۔شیشے کی دیواروں کے پیچھے شہر پھیل چکا تھا،نیچے چھوٹے چھوٹے لوگ،چھوٹی چھوٹی گاڑیاں،اور ان سے بھی چھوٹے خواب۔
اور ان سب سے اوپر،اُفق خاموش کھڑی تھی۔
اس کے سامنے میز پر آین سہیل کی فائل بند پڑی تھی۔وہی فائل جسے سب خطرہ کہہ رہے تھے۔وہی نام جسے سب شک کی نظر سے دیکھ رہے تھے۔اور وہی شخص جسے وہ خود بھی دشمن مانتی تھی۔
مگر پھر بھی…
اُس نے اُسے اپنا پروجیکٹ پارٹنر چُن لیا۔
کیوں؟
وہ کرسی پر آہستہ بیٹھ گئی۔انگوٹھے سے فائل کے کنارے کو چھوا۔
"دشمن دو طرح کے ہوتے ہیں،"اس کے دل کی آواز خود سے بولی،"ایک وہ جو پیچھے وار کرتے ہیں…اور ایک وہ جو سامنے کھڑے ہو کر آئینہ بن جاتے ہیں۔"
آین سہیل پہلا نہیں تھا۔وہ دوسرا تھا۔
اور اُفق کو ہمیشہ آئینوں کی ضرورت رہتی تھی…چاہے وہ چہرہ دکھاتے ہوںیا خطرہ۔
اُس نے کھڑکی کے پار دیکھتے ہوئے سوچا:
اس شہر میں زیادہ تر لوگ مجھے اس لیے مانتے ہیں کیونکہ میں خاموش ہوں۔مضبوط ہوں۔ناقابلِ شکست ہوں۔
لیکن کوئی بھی یہ نہیں جانتاکہ مضبوط دیواروں کو بھی کبھی کبھی ایک ہتھوڑا چاہیے ہوتا ہےتاکہ وہ خود کو بھول نہ جائیں۔
اور آین سہیل…وہ اُس کا ہتھوڑا تھا۔
وہ جانتی تھی کہ وہ شخص آسان نہیں۔وہ چاپلوسی نہیں کرے گا۔وہ سر نہیں جھکائے گا۔وہ ہاں میں ہاں نہیں ملائے گا۔
اور اُفق کوبالکل یہی چاہیے تھا۔
کیونکہ وہ اب اُن لوگوں سے تھک چکی تھی جو صرف اس کے نام سے ڈرتے تھے۔جو اس کی ہوسٹنگ میں جیتنا چاہتے تھے۔جو اس کے پیچھے رہ کے ترقی چاہتے تھے۔
وہ کسی ایسے کو ساتھ لانا چاہتی تھی جو اُس کے برابر کھڑا ہو سکے۔جو اُس کے آگے بول سکے۔جو اُسے چیلنج کر سکے۔
وہ جانتی تھی…
طاقتور انسان کو دشمن کمزور نہیں کرتا،اطمینان کمزور کرتا ہے۔
اور وہ خود کواطمینان کا شکار نہیں بنانا چاہتی تھی۔
دروازے پر ہلکی سی دستک ہوئی۔
"میڈم، آپ نے مسٹر آین کو کال کے لیے بُلایا تھا؟"
اُفق نے پلک بھی نہ جھپکی۔
"ہاں… آنے دیں۔"
چند لمحوں بعد آین سہیل اندر داخل ہوا۔
خاموش۔سیدھا۔غیرضروری باتوں سے بے نیاز۔
"آپ نے مجھے پارٹنر بنایا،"اس نے بغیر تمہید کے کہا،"جبکہ آپ کو معلوم ہے میں آپ کی تعریف کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔"
اُفق نے اسے دیکھا۔
پھر ہلکی سی سانس خارج کی۔
"اسی لیے تو بنایا ہے،"وہ بولی،"تعریف کرنے والوں کے درمیان میرے پاس پہلے ہی سینکڑوں ہیں۔"
وہ ایک لمحے کو چپ رہا۔
"آپ کو خوف نہیں؟کہ میں آپ کا نقصان بھی کر سکتا ہوں؟"
اُفق کے ہونٹوں پرنہ مسکراہٹ آئینہ سختی۔
صرف ایک حقیقت۔
"مجھے اُن سے خوف آتا ہے جو میٹھی آوازوں میں بولتے ہیں،جو آنکھوں میں دیکھ کر جھوٹ کہتے ہیں۔آپ تو کم از کم خطرہ کھلے لفظوں میں لاتے ہو۔اور کھلا دشمن…ہمیشہ پوشیدہ سانپ سے بہتر ہوتا ہے۔"
کمرے میں خاموشی پھیل گئی۔
آین سہیل نے پہلی باراُفق کو صرف بزنس وومن نہیں دیکھا۔بلکہ ایک چال کھیلتی ہوئی شطرنج کی ملکہ دیکھا۔
"تو آپ مجھے آزمائش کے لیے لا رہی ہیں…؟"اس نے پوچھا۔
اُفق کرسی سے اٹھی۔
"نہیں،"وہ اس کے قریب سے گزرتے ہوئے بولی،"میں تمہیں اس لیے ساتھ لا رہی ہوںکہ تم مجھے شکست دینے کی کوشش کرو۔"
وہ چند لمحوں کو رُکی۔
پھر مُڑ کر بولی:
"جو خود کو ہار کے قریب لے آئے،وہی اصل میں جیت کے قابل بنتا ہے۔"
آین سہیل کچھ نہ کہہ سکا۔
کیونکہ اُس نے جان لیا تھا…
یہ لڑکی دشمنوں سے ڈرنے والوں میں سے نہیں۔
یہ اُنہیں پالنے والوں میں سے ہےتاکہ وقت آنے پروہ خود کو توڑتی نہیں…نکھارتی ہے۔
اور اُفق جانتی تھی…
وہ شطرنج کا کھیل شروع کر چکی ہے۔اور اُس نے دانستہ اپنے سامنےاپنا سب سے خطرناک مہراخود رکھا ہے۔
::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
بورڈ روم کی کھڑکیوں سے شام کا سورج آدھا شہر سمیٹ کر آخری روشنی پھینک رہا تھا۔وہی سنہرا رنگ جو اکثر تصویروں میں خوبصورت لگتا ہے…مگر حقیقت میں تھکن کی چادر اوڑھے ہوتا ہے۔
اُفق فائل پر جھکی تھی۔قلم اس کی انگلیوں میں تھوڑی سی سختی سے قید تھا۔وہ دستخط نہیں کر رہی تھی…وہ فیصلہ لکھ رہی تھی۔
دروازہ آہستہ سا کھلا۔
نہ کسی کی دستک۔نہ اجازت۔
بس ایک آواز…
"تم کب سے لوگوں کو دشمن بنا کر جینے لگی ہو؟"
قلم رُکا۔ایک لمحے کو اُفق نے سانس تک روکی۔
پھر آہستہ سے نظریں اٹھائیں۔
سامنے…مہر کھڑی تھی۔
اسی پرانی خاموش مضبوطی کے ساتھ،لیکن آنکھوں میں وہ نرمی بھی تھی جو صرف اُس کے لئے باقی رہ گئی تھی۔
کمرے میں موجود سب لوگوں نے نظریں چرا لیں۔جیسے کسی نے دو آتشی ستاروں کوآمنے سامنے لا کھڑا کیا ہو۔
"تمہیں اجازت کس نے دی؟"اُفق کی آواز ہموار تھی…مگر اس کے نیچے چھپی دراڑ محسوس ہو رہی تھی۔
مہر ایک قدم آگے بڑھی۔
"اجازت؟"وہ ہلکا سا مسکرائی مگر مسکراہٹ آنکھوں تک نہیں پہنچی۔"دوست بننے کے لیے اجازت نہیں مانگی جاتی،اور دشمن بننے سے روکا جاتا ہے۔"
اُفق نے کرسی سے ٹیک لگائی۔چہرے پر وہی سرد خود اعتمادی۔
"میں نے تمہیں بلایا نہیں۔"
مہر نے میز پر نظریں ڈالی۔فائل پر۔آین سہیل کا نام چمک رہا تھا۔
"اور میں نے تمہیں دشمن بنانے کو نہیں کہا تھا،"وہ بولی،"لیکن تم دن بدن اس کام میں ماہر ہوتی جا رہی ہو۔"
اُفق نے اب سیدھا اس کی طرف دیکھا۔نظریں ٹھنڈی۔ناقابلِ پڑھی جانے والی۔
"یہ بزنس ہے، جذباتی ڈرامہ نہیں۔"
مہر نے ہنس کر سانس باہر نکالی،وہ ہنسی جس میں خوشی نہیں…صرف بے بسی ہوتی ہے۔
"بزنس کے نام پرتم نے اپنے اردگرد دیواریں کھڑی کر لیں، اُفق۔پہلے حفاظت کے لیے…اب قید کے لیے۔"
اُفق کی پلک ذرا سی لرزی۔
"تم جانتی ہو میں یہاں کیسے پہنچی ہوں۔"
"اور تم بھول رہی ہوکہ تم کہاں سے نکلی تھیں،"مہر آہستہ بولی۔
خاموشی چھا گئی۔
ایسی خاموشی جس میں ماضی بھی سانس لیتا ہےاور حال بھی لرزتا ہے۔
مہر نے میز کے کنارے ہاتھ رکھا۔
"تمہیں لگتا ہے اگر تم دشمن بناتی جاؤ گی تو تم مضبوط ہوتی جاؤ گی؟نہیں اُفق…تم بس تنہا ہوتی جاؤ گی۔"
اُفق نے نظریں چرا لیں۔کھڑکی کے باہر دیکھنے لگی۔
"تنہائی طاقت کی قیمت ہوتی ہے،"
وہ ٹھنڈی آواز میں بولی۔
مہر دو قدم قریب آئی۔
"نہیں، طاقت کی نہیں…خوف کی۔"
اُفق چونکی۔لپک کر مہر کی طرف دیکھا۔
"خوف؟"
مہر کی آواز مزید دھیمی ہو گئی۔
"ہاں…کہ کہیں تم دوبارہ کمزور نہ پڑ جاؤ۔کہ کہیں تمہیں پھر کسی کی ضرورت نہ پڑ جائے۔کہ کہیں تم پھر انسان نہ بن جاؤ۔"
اُفق کے ہاتھ مٹھی بن گئے۔
"انسان بننا کمزوری ہے۔"
مہر نے سر ہلایا۔
"نہیں…انسان بننا ہمت ہے۔"
وہ لمحہ بھر رکی۔
پھر نرم مگر کاٹ دار لہجے میں بولی:
"اور یاد رکھو…ہر دشمن تمہیں بڑا نہیں بناتا۔کچھ دشمن تمہیں اندر سے چھوٹا بھی کرتے جاتے ہیں…خاموشی سے۔"
اُفق نے کچھ نہیں کہا۔
مگر اس کی آنکھوں میں پہلی بارایک ایسا سایہ آیاجو غصہ نہیں تھا…سوچ تھا۔
مہر نے مڑتے ہوئے بس اتنا کہا:
"دشمن بناؤ…ضرور بناؤ۔لیکن اتنے نہیں کہ ایک تمہیں خود سے لڑنا پڑ جائے۔"
دروازہ بند ہوا۔
کمرہ پھر خاموش ہو گیا۔
لیکن اب یہ خاموشی وہ والی نہیں تھی جو طاقت دیتی ہے…
یہ وہ خاموشی تھی جو سوال چھوڑ جاتی ہے۔
اور اُفق کے دل میں ایک سوال چپ چاپ سانس لینے لگا:
کیا میں واقعی مضبوط ہو رہی ہوں…یا صرف اکیلی؟
;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;
شہر ابھی پوری طرح جاگا نہیں تھا، مگر اُفق کا دن جاگ چکا تھا۔
آج کی صبح عام صبحوں جیسی نہیں تھی۔ یہ وہ صبح تھی جس میں ہوا کے ہر جھونکے کے پیچھے شور تھا، خاموشی کے ہر وقفے میں سازش تھی، اور سورج کی پہلی کرن کے ساتھ ایک نیا امتحان بھی۔
اُفق نے کھڑکی کا پردہ ہلکا سا سرکایا۔ باہر شہر بظاہر پرسکون تھا، مگر وہ جانتی تھی کہ اصل جنگ سڑکوں پر نہیں، دماغوں میں ہوتی ہے۔وہ اپنے بَل کھاتے بالوں کو ہلکا سا پیچھے کر کے آئینے کے سامنے کھڑی ہوئی۔ آنکھوں میں وہی پرانی سرد مہری… مگر اس سرد مہری کے نیچے ایک آتش فشاں سویا ہوا تھا۔ ہوٹھوں پر کوئی مسکراہٹ نہیں، بس ایک فیصلہ۔"آج ڈرنے کا دن نہیں ہے اُفق… آج ڈرانے کا دن ہے۔"
اسی لمحے اس کا فون وائبرٹ ہوا۔
Ayan Suhail.
ایک لمحے کے لیے اس کی پلکیں بھی نہیں جھپکیں۔وہ جانتی تھی کہ آیان خطرہ بن سکتا ہے، بلکہ بنے گا… پھر بھی اس نے اُسے پروجیکٹ پارٹنر چُنا تھا۔
کیوں؟
کیونکہ اُفق کو کمزور دشمن نہیں پسند تھے۔اُسے مقابلہ چاہیے تھا، آئینہ چاہیے تھا، ایک ایسا انسان جو اسے چیلنج کرے — تاکہ اسے خود کو ایک بار پھر ثابت کرنے کا موقع ملے۔
"دشمن کو دور رکھنا آسان ہوتا ہے… مگر اُسے قریب رکھنا طاقت کی پہچان ہے۔"یہ اُس کا اصول تھا۔
دفتر پہنچتے ہی ایک عجیب سا سکوت چھا گیا۔لوگ باتیں کرتے کرتے چپ ہو گئے، جیسے طوفان سے پہلے سمندر خاموش ہو جاتا ہے۔سب کی نظریں اُفق پر تھیں۔ وہ جانتے تھے کہ آج کا دن عام نہیں ہے۔
اور پھر…
دروازہ زور سے کھلا۔
مِہر۔
بغیر اجازت اندر داخل ہوئی، اُس کی آنکھوں میں غصہ، چہرے پر فکر، اور سانس میں جلد بازی تھی۔
"تم پاگل ہو گئی ہو اُفق؟!"اُس نے سیدھا اُفق کے سامنے آ کر کہا۔
اُفق نے آہستہ سے فائل بند کی۔آنکھیں اُٹھائیں۔"اگر پاگل ہونا خود کو چُننے کا نام ہے… تو ہاں، میں پاگل ہوں۔"
مِہر نے میز پر ہاتھ مارا۔"تم کیوں خود کو دشمنوں کے بیچ ڈال رہی ہو؟ آیان سہیل کے بارے میں تمہیں سب پتا ہے! اُس کا ماضی، اُس کی فطرت، اُس کی انا… پھر بھی؟!"
اُفق ہلکا سا مسکرائی — وہ مسکراہٹ جو دل کی نہیں، جنگ کی ہوتی ہے۔"مِہر… میں دشمنوں سے ڈرتی نہیں ہوں۔ میں اُنہیں استعمال کرتی ہوں۔"
مِہر کی آنکھوں میں نمی جھلک گئی۔"اور اگر وہ تمہیں توڑنے آ گیا تو؟"
اُفق نے نظر چرا لی… صرف ایک لمحے کے لیے۔پھر دھیمی آواز میں بولی:
"جو پہلے ہی جذبات دفن کر چکی ہو… وہ ٹوٹ کیسے سکتی ہے؟"
اسی لمحے باہر شور ہوا۔کسی کا نام گونجا۔کسی نے کہا:"Аyan is here."
اور اُفق کے ہونٹوں پر وہی سرد مسکراہٹ واپس آ گئی…
"اُسے آنے دو…"وہ بڑبڑائی،"کھیل اب شروع ہوگا۔"
;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;
دروازہ آہستہ سے بند ہوا… مگر کمرے کی فضا میں جو شور پھیل چکا تھا، وہ بند ہونے والا نہیں تھا۔
اُفق نے گردن ذرا سی ایک طرف جھکائی۔اُس کی نگاہ سامنے ٹک گئی۔
آیان سہیل۔
وہ بالکل ویسا ہی تھا جیسا شہر کے چرچے کہتے تھے — خاموش، خطرناک، اور حد سے زیادہ پُراعتماد۔سیاہ سوٹ، سیدھے بال، اور آنکھوں میں وہ چمک… جو اکثر انسان سے پہلے اس کی نیت کا اعلان کر دیتی ہے۔
وہ آہستہ آہستہ چل کر میز کے پاس آیا۔
"مس اُفق…"اُس کی آواز میں نرمی تھی، مگر وہ نرمی زہر جیسی تھی۔"میں امید کر رہا تھا کہ آپ اتنی جلدی مجھ پر بھروسا تو نہیں کریں گی۔"
اُفق نے فائل اس کی طرف نہیں سرکائی۔بس اس کی آنکھوں میں دیکھا۔
"اور میں امید کر رہی تھی کہ آپ مجھے کمزور سمجھنے کی غلطی نہیں کریں گے۔"
کمرے میں ایک لمحے کو مکمل خاموشی چھا گئی۔لوگ دم روک کر یہ منظر دیکھ رہے تھے۔یہ کوئی عام میٹنگ نہیں تھی… یہ دو طاقتور ذہنوں کی جنگ تھی۔
آیان ہلکا سا مسکرایا۔"میں نے آپ کو کمزور کبھی نہیں سمجھا۔اسی لیے تو یہاں ہوں۔"
اُفق نے کرسی سے ٹیک لگائی۔ہونٹوں پر ایک سرد مسکراہٹ آئی۔
"تو پھر صاف بات کرتے ہیں آیان سہیل…میں نے آپ کو پارٹنر اس لیے نہیں چنا کیونکہ مجھے آپ پر بھروسا ہے…میں نے آپ کو اس لیے چنا کیونکہ آپ خطرناک ہیں۔"
سب چونک گئے۔
مِہر نے ڈر سے اُفق کو دیکھا، جیسے کہنا چاہتی ہو: یہ تم کیا کر رہی ہو؟
مگر اُفق رکنے والی کہاں تھی۔
"مجھے محفوظ آدمی نہیں چاہیے…مجھے وہ چاہیے جو میدان بدل دے، چاہے خود جل ہی کیوں نہ جائے۔"
آیان نے نظریں اُس سے ہٹائیں نہیں۔اس کی مسکراہٹ آہستہ آہستہ گہری ہوئی۔
"تو پھر آپ جانتی ہیں…میں دوست نہیں بننے آیا…"
وہ تھوڑا سا جھکا، اُس کی آواز اب صرف اُفق تک محدود ہو گئی۔
"میں یا تو آپ کو توڑوں گا…یا آپ کے ساتھ مل کر سب کچھ توڑ ڈالوں گا۔"
مِہر برداشت نہ کر سکی۔
وہ آگے بڑھی۔"یہ کوئی فلم نہیں ہے آیان! یہاں انسانوں کی زندگیاں جڑی ہوتی ہیں!"
آیان سیدھا ہوا۔"اور یہی تو اصل مزہ ہے۔"
اُفق ہلکی آواز میں بولی:
"مِہر… چھوڑو…جو ڈر کے کھیل نہیں کھیل سکتے وہ تماشائی بنتے ہیں…اور ہم… صرف کھیلنے والے ہیں۔"
مِہر کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔"تم خود کو تنہا کرتی جا رہی ہو اُفق… دشمن بڑھا رہی ہو…"
اُفق نے نرمی سے کہا،"دشمن نہیں بڑھا رہی…اپنی طاقت کی پہچان صاف کر رہی ہوں۔"
اسی لمحے ایک اسسٹنٹ بھاگتا ہوا آیا۔
"مس اُفق… ایک مسئلہ ہو گیا ہے۔آپ کے پروجیکٹ کی فائلز لیک ہو گئی ہیں… اور میڈیا تک پہنچ چکی ہیں۔"
کمرے میں جیسے دھماکہ سا ہو گیا۔
سب کی نظریں اُفق پر جم گئیں۔
اُس نے آہستہ آہستہ سانس لی۔چہرے پر کوئی خوف نہ آیا۔
بس نظر آیان پر ڈالی…
اور کہا:
"تو سازش کی شروعات ہو گئی۔اب دیکھتے ہیں دشمن ہمارا ہے یا ہم دشمن کے۔"
;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;
میٹنگ روم کی شیشے والی دیوار کے باہر اب چینخ و پکار مچ چکی تھی۔صحافی جمع ہو رہے تھے۔فونز بج رہے تھے۔شیئر مارکیٹ میں اُفق کے نام پر گراف ہلنے لگے تھے۔
لیکن اندر…اُفق پُرسکون بیٹھی تھی۔
جیسے طوفان کو بھی اُس کی اجازت چاہیے ہو۔
اُس کی انگلیاں میز پر ہلکے ہلکے بج رہی تھیں…ٹک… ٹک… ٹک…جیسے وقت کو دھمکی دے رہی ہوں۔
مِہر نے سرگوشی میں کہا:"تم پاگل ہو گئی ہو؟ فائلز لیک ہو چکی ہیں! تمہاری پوری کمپنی خطرے میں ہے!"
اُفق نے نظر اُٹھا کر بھی اسے نہیں دیکھا۔بس دھیرے سے بولی:
"نہیں مِہر…اب تو کھیل صحیح شروع ہوا ہے۔"
اسی لمحے دروازہ دوبارہ کھلا۔
ایک لڑکا اندر آیا…اونچا قد… کندھوں پر کوٹ… ہاتھ میں ٹیبلٹ۔
چہرے پر بےحد سنجیدگی۔
"مس اُفق…لیک ہونے والی فائلز fake نہیں ہیں۔اصل ہیں۔"
کمرے میں سردی پھیل گئی۔
مِہر کے ہاتھ سے فائل گر گئی۔
"اصل…؟"اُفق کی آواز ہلی نہیں،مگر فضا ہل گئی۔
"جی میم…""کوئی اندر والا ہے۔سسٹم توڑا نہیں گیا…دروازہ اندر سے کھولا گیا ہے۔"
اُفق پہلی بار کرسی سے اٹھی۔
سیاہ ہیل پہنی تھی —اور جب وہ چلتی تھی…تو آواز نہیں… فیصلہ گونجتا تھا۔
وہ کھڑکی تک گئی۔شیشے کے پار نیچے میڈیا کا ہجوم۔ہر چہرہ ایک سوال۔ہر کیمرہ ایک ہتھیار۔
وہ ہلکی سی مسکرائی۔
"کہتے ہیں نا…سب سے خطرناک وار وہ ہوتا ہےجو اندر سے آئے۔"
مِہر گھبرا گئی:"تو تمہیں شک کس پر ہے؟"
اُفق نے پلٹ کر دیکھا۔
سیدھا…آیان سہیل کی طرف۔
وہ خاموش کھڑا تھا۔بالکل ساکت۔آنکھوں میں نہ حیرت…نہ دفاع۔
صرف وہی پرانا سکون —جو اکثر طوفان سے پہلے آتا ہے۔
"اگر تم سمجھتی ہو یہ میں نے کیا ہے…"وہ بولا…"تو تم نے مجھے بہت کم پہچانا ہے۔"
اُفق کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ آئی۔
"اور اگر تم نے نہیں کیا…""تو پھر تم سچ میں خطرناک ہو…"
اچانک مِہر آگے بڑھی۔
"بس کرو اُفق!تم ہر کسی کو دشمن بنا رہی ہو!تمہیں احساس بھی ہے تم کس کھیل میں ہو؟"
اُفق چند لمحے خاموش رہی۔
پھر آہستہ بولی:
"مِہر…یہ کھیل میں نے شروع نہیں کیا…یہ کھیل نے مجھے چُنا ہے۔"
اسی لمحے اسسٹنٹ دوبارہ آیا۔
"میم…ایک اور مسئلہ ہے۔"
اُفق کی آنکھوں میں پہلی بار چمک آئی۔
"بولیں…آج سارا زہر اکٹھا ہی اُگل دو۔"
وہ سانس لے کر بولا:
"آپ کے نئے پراجیکٹ کا مین انویسٹر…اپنا نام واپس لے رہا ہے۔"
کمرے میں سانسیں رک گئیں۔
مِہر نے آنکھیں بند کر لیں۔
آیان نے پہلی بار حرکت کی۔دو قدم آگے آیا۔
اور دھیرے سے بولا:
"اب سمجھ آئیں آپ کو…میں نے ہاں کیوں کی تھی؟"
اُفق نے چونک کر اسے دیکھا۔
"کیوں…؟"
وہ قریب آ کر بہت آہستہ بولا،صرف اتنا کہ وہی سن سکے:
"کیونکہ جب سب دروازے بند ہوں…تو صرف دشمن ہی ایک راستہ کھولتا ہے۔اور وہ راستہ… ہمیشہ مہنگا ہوتا ہے۔"
اُفق نے ہلکا سا سانس لیا۔
پھر مڑ کر سب لوگوں کی طرف دیکھا۔
اور صاف، اونچی آواز میں کہا:
"میٹنگ ختم نہیں ہوئی…آج سےیہ جنگ ہے۔"
اور پھر اس نے مِہر کی طرف دیکھا:
"اور جنگ میں…دوست کم ہوتے ہیں…زمہ داریاں زیادہ۔"
;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;
کمرے میں اب بھی سناٹا تھا۔وہی بھاری، سانس روک دینے والا سناٹا…جو صرف طوفان کے آنے سے پہلے پیدا ہوتا ہے۔
اُفق نے ٹیبل پر پڑے ریموٹ کو اٹھایا۔سکرین آن کی۔اور پورے میٹنگ روم کی دیوار پر ایک ڈیجیٹل ڈیش بورڈ کھل گیا۔
ہر گراف، ہر نمبر، ہر ڈیٹا…زنده تھا۔
"آپ سب ایک بات بھول رہے ہیں…"اس کی آواز نرم تھی، مگر اس میں لوہا بہہ رہا تھا۔"کہ یہ کمپنی صرف عمارتوں سے نہیں بنی…یہ فیصلوں سے بنی ہے۔"
وہ چل کر سکرین کے قریب کھڑی ہوگئی۔
سیاہ اسکرین پر سرخ گراف تیزی سے نیچے جا رہا تھا۔شیئرز گر رہے تھے۔اعتماد ٹوٹ رہا تھا۔
سب سانس روک کر دیکھ رہے تھے۔
پھر اُس نے ایک بٹن دبایا۔
سکرین بدل گئی۔
اب ایک اور کمپنی کا نام ظاہر ہوا…ایک بین الاقوامی گروپ…وہی گروپ جس کا پروپوزل دو ماہ پہلے ریجیکٹ ہوا تھا۔
مِہر چونک گئی:"یہ… یہ تو—"
اُفق نے بات کاٹ دی:"میں جانتی تھی کوئی اندر سے وار کرے گا۔""اس لیے میں نے اپنی کمزوری کو پہلے ہی اپنی طاقت بنا لیا۔"
وہ پلٹی، میز پر رکھی ایک فائل اٹھائی۔
آہستگی سے کھولی۔
"مین انویسٹر نے پیچھے ہٹنے کا فیصلہ آج صبح نہیں کیا…""وہ کل رات ہی اپنا دل بدل چکا تھا۔اور یہی لمحہ تھا جس کا مجھے انتظار تھا۔"
کمرے میں سرگوشیاں شروع ہو گئیں۔
آیان سہیل خاموش تھا…مگر اس کی آنکھوں میں حیرت کی ہلکی لہر اتر آئی تھی۔
اُفق نے سکرین کی طرف اشارہ کیا۔
"یہ کمپنی—جس کا نام یہاں لکھا ہے…انہوں نے پچھلے چھ گھنٹوں میں میرے پراجیکٹ کے 40% شیئر خرید چکے ہیں۔خاموشی سے…قانونی طریقے سے…اور مکمل تحفظ کے ساتھ۔"
پورا کمرہ ساکت ہوگیا۔
"لیکن… یہ کیسے؟" ایک ڈائریکٹر کی آواز کانپی۔"ہم تو—"
اُفق نے مسکرا کر کہا:"جب آپ لوگ خطرے کے اعداد و شمار گنتے رہ گئے،میں خطرے کے پیچھے کھڑی نیت پڑھ رہی تھی۔"
اس نے اپنا فون نکالا۔اور سامنے رکھ دیا۔
اسکرین پر ایک ویڈیو آن ہوئی۔
ویڈیو میں وہی انویسٹر…جو کچھ لمحے پہلے اپنا نام واپس لے چکا تھا۔
وہ مسکرا رہا تھا۔اور کہہ رہا تھا:
"اُفق شاہ کمپنی کے ساتھ ہمارا معاہدہ ختم ہوا،لیکن ہمارا یقین نہیں۔اصل سرمایہ اعتماد ہوتا ہے…اور وہ ابھی بھی اُسی کے پاس ہے۔"
ویڈیو ختم ہوئی…
اور کمرے میں ایک لمبی سانس لینے کی آواز آئی…جیسے سب ایک ہی وقت میں زندہ ہوئے ہوں۔
مِہر نے آہستہ سے پوچھا:"تمہیں یہ سب پتا تھا؟"
اُفق نے نظریں جھکائے بس اتنا کہا:"میں نے صرف امکانات کو وقت سے پہلے سن لیا تھا۔"
آیان نے پہلی بار کھل کر مسکرایا۔
"تو یہ سب تمہاری چال تھی؟"
اُفق نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا:
"نہیں…میں چال نہیں چلتی۔میں بس شطرنج کا میدان بدل دیتی ہوں۔"
اسی لمحے اسسٹنٹ نے خبر دی:"میم! اسٹاک واپس اوپر جا رہا ہے!ہماری شیئر ویلیو دوبارہ بلند ہو رہی ہے!"
سکرین پر گراف اوپر جا چکا تھا…سرخ سے سبز۔
کمرے میں سانس بحال ہو چکی تھی۔
لیکن اُفق…
وہ اب بھی سنجیدہ تھی۔
کیونکہ وہ جانتی تھی:یہ صرف پہلا حملہ تھا۔
وہ مڑی، سب کی طرف دیکھا…
اور آہستہ بولی:
"یہ مسئلہ ختم نہیں ہوا…یہ صرف آج کے لیے خاموش ہوا ہے۔جنگ اب ابھی باقی ہے۔"
اور اس کی نگاہ پھر آیان پر جا ٹکی۔
"اور مرکزمیں ابھی بھی تم ہو، آیان سہیل…دیکھتے ہیں تم دشمن ہو…یا کسی بڑی چال کا حصہ۔"
;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;
سکرین پر گراف سبز ہو چکا تھا…مگر باہر… دنیا اب بھی سرخ تھی۔
میڈیا کی گاڑیاں کمپنی کے باہر قطار میں لگ چکی تھیں۔کیمرے آن تھے۔مائیکروفون تیار۔سوشل میڈیا پر ہیش ٹیگز ٹرینڈ کر رہے تھے:
#Ufaq__Crisis#Empire_Shaking#Business_Queen_Falling?
ہر چینل کو سکینڈل چاہیے تھا۔ہر صحافی کو ایک کہانی۔اور ہر کہانی کو ایک ولن۔
لیکن اس بار…یہ کہانی ان کے قابو میں نہیں تھی۔
اُفق نے کوٹ کی آستین درست کی۔اپنی گھڑی دیکھی۔بالکل وقت پر۔
وہ لفٹ کی طرف بڑھی تو مِہر نے اس کا راستہ روکا۔
"رکو…تم خود جا رہی ہو؟یہ لوگ تمہیں کچلنے آئے ہیں۔"
اُفق کی آنکھوں میں نہ خوف تھانہ گھبراہٹ۔صرف سکون… شدید سکون۔
"جو مجھ تک انہی لفظوں سے آیا ہےاسے انہی لفظوں میں جواب دینا بھی ضروری ہے، مِہر۔"
ہال کے دروازے کھلے۔
روشنی…چمک…شور…
ایک لمحے کو تو دعا سی فضا بن گئی۔
اور پھر…
وہ نظر آئی۔
سیاہ سادہ سوٹ کوئی بھاری میک اپ نہیں چہرے پر وہی خاموش وقارجو طوفان کے درمیان بھی خاموش رہتا ہے۔
کیمرے جیسے ساکت ہو گئے۔
ایک رپورٹر چیخا:"مس اُفق، شیئرز گرنے کا ذمہ دار کون ہے؟"
دوسرا بولا:"کیا آپ کی کمپنی ختم ہونے جا رہی ہے؟"
تیسرا طنز سے:"کیا یہ سچ ہے کہ آپ نے غلط فیصلہ کیے؟"
اُفق نے سب کی طرف دیکھا۔نہ غصے سے۔نہ انا سے۔
بس نظر بھر کے۔
اور بولا:
"آج کی دنیا میں سب سے بڑی کمزوری جذبات میں دیا گیا فیصلہ ہوتا ہے۔اور سب سے بڑی طاقت…خاموشی میں لیا گیا قدم۔"
ہال میں یک دم خاموشی چھا گئی۔
اس نے مائیک کے قریب ہو کر بات جاری رکھی:
"ہماری کمپنی کسی بحران کا شکار نہیں تھی…ہم آزمائش سے گزر رہی تھی۔"
"اور فرق صرف اتنا ہے کہ بحران انسان کو توڑتا ہے…آزمائش انسان کو بناتی ہے۔"
وہ تھوڑی دیر رکی۔
اور پھر ایک فائل اسٹیج پر رکھی۔
"یہ ہماری نئی پارٹنرشپ ہے۔ایک انٹرنیشنل گروپ کے ساتھ۔جو ہم پر پہلے سے زیادہ یقین رکھتا ہے۔"
کیمرے پھر سے روشن ہو گئے۔
فلیش…
فلیش…
فلیش…
اس نے آخر میں صرف اتنا کہا:
"میرے دشمنوں کا شکریہ۔اگر وہ راستہ نہ روکتےتو میں اتنی تیزی سے دوڑنا نہ سیکھتی۔"
وہ مڑنے لگی…تو ایک رپورٹر کی آواز آئی:
"تو آپ جیت گئیں؟"
اُفق رکی…
پیچھے مڑی…
اور ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ بولی:
"نہیں…یہ تو بس پہلا جواب تھا۔"
اس دن میڈیا کو کہانی مل گئی۔
لیکن وہ کہانی اُفق نے خود لکھی۔
اگلے دن سوشل میڈیا کا رخ بدل گیا۔
ہاٹ ہیڈلائنز:
"She Didn't Fall. She Rose Differently.""Ufaq — Not Just a Businesswoman, A Strategy."
کمپنی کے اسٹاک پہلے سے زیادہ اوپر گئے۔انویسٹرز کی لائن لگ گئی۔نئے پروجیکٹس کے آفرز آنے لگے۔
اور مِہر…
آفس کے کونے میں کھڑی، مسکرا رہی تھی۔
"میں نے کہا تھا نا…"اس نے آہستہ کہا،"تم طوفان نہیں ہو…تم طوفان کو راستہ دیتی ہو۔"
اُفق نے صرف کہا:
"ابھی موسم بدلنا باقی ہے۔"
اور اس کی آنکھوں میں ایک نیا سایہ اتر آیا۔
;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;
میڈیا کے کیمروں کو جواب دیے چو بیس گھنٹے گزر چکے تھے۔
شہر ابھی تک اس کے نام کو چبا رہا تھا…اور وہ خود خاموش تھی۔
وہ صبح مختلف تھی۔
نہ اس میں جشن تھا، نہ سکون۔صرف ایک تھکی ہوئی خاموشی تھی — ایسی خاموشی جو رات بھر سانس لینے کے بعد صبح کے بوجھ کو قبول کرتی ہے۔
کھڑکی سے چھن کر آتی روشنی فرش پر کسی ہاری ہوئی جنگ کا نقشہ بنا رہی تھی۔ہوا میں ابھی تک کل رات کی نمی بسی ہوئی تھی۔شہر جاگ چکا تھا، لیکن اُفق نہیں جاگی تھی… وہ تو بس آنکھیں کھولے لیٹی تھی۔
چھت کو گھورتی ہوئی۔
کل کے الفاظ بار بار اس کے کانوں میں لوٹ رہے تھے۔سوال، مائیک، روشنی، کیمرے، جملے…اور پھر اس کا اپنا جواب — نہ کوئی جذبات، نہ معذرت، نہ صفائی۔
صرف سچ۔
لیکن سچ بولنے کے بعد جو خاموشی آتی ہے…وہ سب سے خطرناک ہوتی ہے۔
وہ آہستہ سے اٹھی۔نہ جلدی تھی، نہ سستی۔جیسے کوئی اپنے جسم کو نہیں، اپنے آپ کو اٹھا رہی ہو۔
آئینے کے سامنے آکر وہ رک گئی۔
وہ چہرہ…اب وہی نہیں تھا جو پانچ سال پہلے تھا۔
آنکھوں کے گرد تھکن کی باریک لکیریں،لیکن ان میں ہلچل نہیں… صرف ٹھہراؤ تھا۔وہ ٹھہراؤ جو طوفانوں کے بعد سمندر کو ملتا ہے۔
بال اس بار بھی اس کی پشت پر خاموشی سے بکھرے ہوئے تھے۔کچھ strands چہرے پر گر رہی تھیں۔وہ انہیں ہٹانے کے لیے ہاتھ نہیں اٹھاتی — کیونکہ اسے اب اپنے چہرے سے لڑنا نہیں پڑتا تھا۔
وہ خود کو قبول کر چکی تھی۔کچھ زخموں کے ساتھ۔کچھ خاموش چیخوں کے ساتھ۔
فون کی اسکرین روشن ہوئی۔
نوٹیفیکشنز کی قطاریں۔تعریفیں، تنقیدیں، سازشوں کی خوشبو، اور کچھ خالی الفاظ۔
وہ سب کو دیکھ کر بھی کچھ نہ دیکھ سکی۔
کیونکہ اصل جنگ وہاں نہیں تھی۔
وہ جنگ اس کے اندر پھر سے جاگ رہی تھی۔اور وہ اس جنگ کو پہچانتی تھی۔
یہ وہی جنگ تھی جو ہر دفعہ خاموشی کے بعد دوبارہ سر اٹھاتی ہے۔جو کامیابی کے بیچ میں انسان سے پوچھتی ہے:"اب تم کیا ہو؟ اور کیوں ہو؟"
اُس نے فون ایک طرف رکھا۔
اسے اب وضاحت نہیں کرنی تھی۔نہ دنیا کو، نہ خود کو۔
آج کا دن کوئی ہلکا دن نہیں تھا۔
آج وہ دن تھا جب مخالفین خاموش مسکراہٹوں میں چھپے لفظ چلاتے ہیں۔جب دوست غیر یقینی ہوتے ہیں۔جب تعریفیں بھی شک میں لپٹی ہوتی ہیں۔
آج وہ دن تھا جب وہ جو کل اس کے ساتھ کیمرے کے سامنے کھڑے تھے…آج بند دروازوں کے پیچھے اس کے فیصلوں پر سرگوشیاں کریں گے۔
وہ جانتی تھی۔
لیکن آج اس کے اندر کوئی ڈر نہ تھا۔
صرف ایک فیصلہ تھا۔
کہ اگر کل اس نے سچ بولا تھا،تو آج اسے اس سچ پر جینا بھی ہے۔
نہ کسی کو گرانے کے لیے۔نہ خود کو اونچا دکھانے کے لیے۔
بس اپنی جگہ قائم رکھنے کے لیے۔
اور اُسے پتا تھا…
کل میڈیا کو دیا گیا جواب ایک لمحہ تھا۔لیکن آج کا دن…ایک امتحان تھا۔
;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;
دفتر کی عمارت صبح کی دھوپ میں جیسے ایک خاموش دیو کی طرح کھڑی تھی۔شیشوں پر پڑی روشنی آنکھوں کو چبھتی نہیں تھی… بس یاد دلاتی تھی کہ اب پیچھے ہٹنے کی کوئی گنجائش باقی نہیں۔
اُفق گاڑی سے اتری۔
اور اُس لمحے ہوا نے اس کے بالوں کو ہلکا سا چھیڑا…جیسے کوئی بہت پرانا لمحہ اسے چھونے آیا ہو — اور خاموشی سے واپس چلا گیا ہو۔
دروازے خود بخود کھل گئے۔
لیکن اندر کی فضا بند تھی۔
ریسیپشن پر وہی چہرے جو کل تک سنسنی سے اس کا ذکر کر رہے تھے، آج حد سے زیادہ رسمی ہو چکے تھے۔مسکراہٹیں تھیں… مگر آنکھوں میں احتیاط۔
یہی تو ہوتا ہے نا؟جب کوئی ایک دن کی خبر بن کر، دوسرے دن کا خطرہ بن جائے۔
وہ خاموشی سے آگے بڑھی۔قدموں کی آواز marble کے فرش پر مدھم پڑ رہی تھی، جیسے وہ زمین پر نہیں، کسی یاد کے اندر چل رہی ہو۔
لفٹ نے اوپر لے جانا شروع کیا۔
ہر فلور کے ساتھ ایک دھڑکن کم ہو رہی تھی…یا شاید مضبوط ہو رہی تھی۔
وہ خود بھی نہیں جانتی تھی۔
لیکن اسے یہ پتا تھا کہ آج دفتر میں جو بھی ہوگا…وہ اس کے خلاف کم ہوگا، اور اس سے زیادہ، اس کے لیے۔
لفٹ کھلی۔
اور یہیں سے اصل منظر شروع ہوا۔
دفتر کے اندر ماحول حد سے زیادہ پرسکون تھا۔حد سے زیادہ خاموشی…اور خاموشی ہمیشہ کسی طوفان کا پتا دیتی ہے۔
اس کی کیبن کا دروازہ بند تھا۔
جو پہلے کبھی نہیں ہوتا تھا۔
وہ رکی۔
ایک لمحے کے لیے۔
پھر آہستہ سے دروازہ کھولا۔
اندر سب ویسا ہی تھا۔ہر چیز اپنی جگہ۔کرسی، میز، فائلیں…لیکن ہوا کچھ بدلی ہوئی تھی۔
جیسے کوئی یہاں رہ کر گیا ہو۔
جیسے کوئی اس کے بغیر بھی فیصلے کر کے گیا ہو۔
وہ کرسی کے پیچھے آکر کھڑی ہو گئی۔
بیٹھنے سے پہلے…ایک پل کو رکی۔
کیونکہ اُسے اندازہ ہو چکا تھا۔
یہ دن سوالوں کا نہیں تھا۔یہ دن فیصلوں کا تھا۔
اسی لمحےدروازے پر ہلکی سی دستک ہوئی۔
ایک معمولی سی آواز…مگر اس میں کچھ عجیب سا وزن تھا۔
"آج کل تو اجازت لینے کا رواج کم ہوتا جا رہا ہے…"
اُس نے مڑے بغیر کہا۔
خاموشی۔
پھر دروازہ کھلنے کی ہلکی سی آواز۔
اور ایک شناسا خاموشی کمرے میں داخل ہو گئی۔
اُفق نے آنکھیں بند نہیں کیں،نہ چونکی۔نہ حیران ہوئی۔
لیکن اس کی انگلیاں میز پر ہلکی سی سخت ہو گئیں۔
کیونکہ اُسے پتا تھا…
یہ وہ لمحہ ہےجہاں سے یہ دن صرف مشکل نہیں…
خطرناک ہونے والا ہے۔
;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;
دروازہ مکمل طور پر کھلا۔
اور وہ اندر آگیا۔
سب سے پہلے اس کے جوتوں کی آواز آئی…ہلکی مگر صاف۔جیسے وہ کسی کے کمرے میں نہیں، کسی میدانِ جنگ میں چل کر آیا ہو۔
اُفق نے ابھی تک مُڑ کر نہیں دیکھا تھا۔
"اگر اجازت کا رواج ختم ہو چکا ہے…"آیان کی آواز ٹھہری ہوئی تھی، نرم نہیں، سخت بھی نہیں…بس بے حد محتاط۔"تو پھر شکایت کا حق بھی ختم ہو جانا چاہیے۔"
اُفق کے لبوں پر کوئی تاثر نہ آیا۔صرف اُس کے ہاتھ نے قلم کو میز پر رکھ دیا۔
پھر آہستہ سے کرسی پر بیٹھ گئی۔
اور اب مڑی۔
نگاہیں ٹکرائیں۔
نہ حیرت۔نہ نفرت۔نہ پرانی تلخی۔
بس ایک خاموش جانچ۔
جیسے دو لوگ ایک دوسرے کو نہیں…Apni hadain naap rahe hon.
آیان وہی تھا۔وہی پرسکون چہرہ۔وہی آنکھیں جن میں ہمیشہ کچھ کہا ہوا کم، اور چھپایا ہوا زیادہ ہوتا ہے۔
"مجھے لگا تھا کل کے بعد تم آج نہیں آؤ گے۔"اُفق نے ہلکے سے کہا۔
"اور مجھے لگا تھا تم مظبوط ہونے کا ڈرامہ چھوڑ دو گی۔"
خاموشی۔
ایک ایسی خاموشی…جو بولتی تھی، چیختی نہیں تھی۔
اُفق نے ہلکا سا مسکرانے کی کوشش کی، لیکن وہ صرف آنکھوں تک رہی۔
"ڈرامہ تب ہوتا ہے جب اس کے پیچھے کمزوری ہو، آیان…"اُفق نے نظریں اس پر گاڑیں،"اور کمزوریاں میں بہت پہلے دفن کر چکی ہوں۔"
آیان ایک قدم آگے بڑھا۔
میز کے زیادہ قریب۔
"دفن؟"اس کی آواز میں ایک ہلکا سا طنز تھا،"یا زندہ دفن؟ کیونکہ کچھ چیزیں مٹتی نہیں اُفق…وہ بس اندر ہی اندر سانس لیتی رہتی ہیں۔"
یہ جملہ…ہلکا نہیں تھا۔
اُفق کی نظر میز پر پڑی فائل پر چلی گئی۔
وہی فائل…جس پر آج صبح Board Approval کی اسٹیمپ لگی تھی۔
وہی فائل…جس سے سب کچھ بدلنے والا تھا۔
"تم یہاں کیوں آئے ہو، آیان؟"اُس نے سیدھا سوال کیا۔نہ تمہید… نہ نرمی۔
"اس لیے نہیں کہ مجھے صفائی دینی ہے۔اور نہ اس لیے کہ تمہیں کچھ ثابت کرنا ہے۔"
وہ رکا۔سانس بدلی۔
"میں یہاں اس لیے آیا ہوں…کیونکہ آج تم ایک ایسی سرحد پر کھڑی ہو،جہاں سے آگے غلط قدم صرف تمہیں نہیں…تمہارے خوابوں کو بھی جلا دے گا۔"
اُفق کی آنکھیں تنگ ہو گئیں۔
"میرے خوابوں پر بات تم نہیں کرو گے۔"اس کا لہجہ پہلی بار بدلا۔
آیان نے ہلکا سا سر جھکایا۔جیسے مان رہا ہو…یا شاید تائید کر رہا ہو۔
پھر میز پر رکھی فائل کی طرف دیکھتے ہوئے بولا:
"اگر تم نے یہ سائن کر دیا نا اُفق…تو پھر یہ صرف ایک بزنس ڈیل نہیں ہوگی…یہ اعلانِ جنگ ہوگا۔"
اُفق نے فائل پر انگلی رکھی۔
اور آہستہ سے بولا:
"اور اگر میں نہ کروں؟"
آیان نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے صرف ایک جملہ کہا:
"تو پھر تم اب بھی وہی ہو…جو بس ڈر کے ساتھ جیتی ہے۔"
کمرے میں سانس لینا مشکل ہو گیا۔
فضا بوجھل ہو گئی۔
اور اُفق کی انگلی…فائل کے کونے پر رُکی ہوئی تھی۔
;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;
اُفق میڈیا کے کانفرنس روم میں ایک عجیب سی خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ایسی خاموشی جس میں فیصلہ بھی چھپا ہوا تھا… اور بے چینی بھی۔
پنکھے کی ہلکی آواز، اے سی کی ٹھنڈی ہوا، اور سب کی نظریں…مگر مہر کے اندر سب کچھ ساکت نہیں تھا۔
وہ سیدھی کھڑی رہی۔
اس کی آواز ہلکی تھی مگر لہجے میں لرزش نہیں تھی۔
"تنقید صرف کمزور کرنے کے لیے نہیں ہوتی…کبھی کبھی وہ کسی کو مضبوط بنانے کے لیے بھی ہوتی ہے۔"
کمرے میں چند لمحے کے لیے سناٹا چھا گیا۔
تبھی دروازہ کھلا۔
اور ایان اندر آیا۔
نہ کوئی دکھاوا، نہ کوئی فلمی انٹری…بس اُس کا آنا ہی کافی تھا کہ فضا بدل جائے۔
سفید قمیض، بازو ہلکے سے موڑے ہوئے، کلائی پر سادہ سی گھڑی،اور چہرے پر وہ سنجیدگی جس کے پیچھے ہزار باتیں چھپی ہوتی ہیں۔
اس کی نظریں مہر پر جا ٹھہریں۔
صرف دو لمحوں کے لیے۔
لیکن ان دو لمحوں میں ہی ایک پرانی پہچان جاگ اٹھی۔
وہ دھیمے لہجے میں بولا:"…میٹنگ ختم ہو گئی؟"
منیجر نے سر ہلایا۔"سر، ہم ان کے پروپوزل پر بات کر رہے تھے۔"
ایان نے نرمی سے بات کاٹ دی۔
"نہیں…آپ اس کے پروپوزل پر بات کر رہے تھے…اُس کی ہمت پر نہیں۔"
کمرے میں پھر خاموشی پھیل گئی۔
مہر کی آنکھوں میں حیرت سی تیر گئی۔
ایان نے فائل میز پر رکھی اور اس کی طرف دیکھ کر بولا:
"اُفق نے جو بریف دیا تھا…اُس کی روح مہر نے سب سے بہتر سمجھی ہے۔"
سب کی نظریں سکرین کی طرف مڑ گئیں۔
مہر کچھ نہ بولی۔
بس اُس کی پلکیں ذرا سی بھیگ گئیں…وہ جذبات جنہیں وہ چھپانا چاہتی تھی،ایان دیکھ گیا تھا۔
مگر اُس نے نظریں ہٹا لیں۔
جیسے ہمیشہ۔
جیسے وہ خود سے لڑ رہا ہو۔
;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;
ہال خالی ہو چکا تھا۔مانٹر، مائیکس، کیمرے… سب خاموش ہو گئے تھے۔صرف دو کرسیاں باقی تھیں۔
اور ان پر…صرف اُفق اور مہر۔
اُفق کی انگلیاں اب بھی میز کے کنارے پر جمی ہوئی تھیں جیسے وہ خود کو سہارا دے رہی ہو۔
مہر نے آہستہ سے پوچھا:"دل بہت بھاری ہو رہا ہے؟"
اُفق نے سر نہیں اٹھایا۔بس آہستہ سے کہا:"بھاری نہیں…بس تھکاہوا ہے۔پر تمہارے پاس آ کر تھکن بھی ٹھہر جاتی ہے۔"
مہر نے ایک لمحے کو آنکھیں بند کیں۔"تم نے آج میڈیا کے سامنے نہیں…خود اپنے خوف کے سامنے کھڑے ہو کر بات کی ہے۔یہ ہر کوئی نہیں کر پاتا۔"
اُفق نے پہلی بار اس کی طرف دیکھا۔"اگر تم سامنے نہ ہوتیں تو شاید آواز بھی نہ نکلتی۔"
خاموشی چھا گئی۔
وہ خاموشی جو صرف دو حقیقی دوستوں کے درمیان ہوتی ہے۔
نہ بوجھ، نہ دکھاوا، نہ ڈرامہ۔
مہر نے آہستہ سے اس کی پیشانی کو اپنے ماتھے سے لگا دیا۔
"اُفق…جو لوگ ہمیں نہیں سمجھتےہماری خاموشی کو تکبر سمجھتے ہیں لیکن وہ نہیں جانتےہم نے یہ خاموشی کتنی جنگوں کے بعد حاصل کی ہے۔"
اُفق کی آواز کانپ گئی:"اور اگر میں ٹوٹ گئی؟"
مہر نے اس کی انگلیوں کو مضبوطی سے تھاما:"تو میں ہوں نا…جو تمہیں واپس جوڑوں گی۔جیسے تم نے مجھے جوڑا تھا۔"
اُفق کی آنکھوں میں نمی اُتری۔اور وہ پہلی بار بےساختہ مسکرائی۔
خالص، سچی، زندہ۔
کل کی سخت اُفق آج صرف مہر کے لیے…صرف ایک تھکی ہوئی لڑکی تھی۔
;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;
رات گزر گئی…لیکن وہ رات عام رات نہیں تھی۔
انہیں نیند نہیں آئی تھی۔بس وقت گزرا تھا۔
چھت پر دونوں لیٹی تھیں،آسمان کو دیکھتے ہوئے۔ہوا میں نہ خنکی تھی نہ گرمی،بس ایک عجیب سا سکون تھا…جو صرف وہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ محسوس کر سکتی تھیں۔
مہر نے آہستہ سے کہا:"یاد ہے جب ہم پہلی بار یہاں آئیں تھیں؟تب تم نے کہا تھا:'ایک دن یہ شہر ہمارا ہو گا'"
اُفق نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا:"اور تم نے کہا تھا:'شہر نہیں، پہلے خود کو تو اپنا بنا لیتے ہیں'"
ایک لمحے کو دونوں خاموش ہو گئیں۔
پھر اُفق نے سر ہلکا سا گھما کر مہر کو دیکھا۔
"ہم نے واقعی خود کو اپنا بنا لیا کیا؟"
مہر نے جواب دینے سے پہلے آسمان کو دیکھا۔"نہیں…ہم اب بھی سیکھ رہے ہیں۔لیکن پہلی بارہم کسی اور کے لیے نہیں،اپنے لیے سیکھ رہے ہیں۔"
اُفق کی آنکھوں میں ایک عجیب سی روشنی آ گئی۔نہ غرور، نہ درد…بس شعور۔
"کل کا دن دوبارہ مشکل ہوگا۔آوازیں ہوں گی…سوال ہوں گے…نگاہیں ہوں گی…"
مہر نے فوراً اس کی بات کاٹ دی:"اور ہم ہوں گی۔صرف ہم۔بس یہی کافی ہے۔"
اُفق آہستہ سے ہنسی۔پر وہ ہنسی کم،سستا سا زخم تھاجو بھرنے کی ضد کر رہا ہو۔
مہر نے اس کی پیشانی پر ہاتھ رکھا۔"سو جاؤ اُفق…کل پھر لڑنا ہے۔اور تمہیں پورے ہوش کے ساتھ لڑنا ہے۔آدھے دل سے نہیں۔"
اُفق نے آنکھیں بند کرتے ہوئے کہا:"تم ساتھ ہو تودل کبھی آدھا نہیں رہتا۔"
اور رات خاموشی سےان دونوں کو سمیٹ کرسحر کی طرف لے جانے لگی…
اور پچھلے پانچ سال کسی فلم کی طرح نظروں کے سامنے چلنے لگے
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
پانچ سال پہلے۔"
آخر وہ سایہ کون تھاجو یاد سے بنا تھا یا بھول سے؟
اُفق نے وہ سوال رات کے بعد بھی خود سے بارہا پوچھا۔آئینے کے سامنے،خالی کمرے میں،اور ان دنوں میں بھی جب اس کی زندگی بظاہر سب کچھ پا چکی تھی۔
لیکن اس رات کے بعداس کی حقیقت بدل گئی۔
سایہ کوئی خواب نہیں تھا۔نہ وہم۔نہ تھکن کا دھوکہ۔
وہ ایک انسان تھا۔
لیکن وہ انسان گوشت پوست کا نہیں تھا…وہ اس کی زندگی کےاس حصے سے تھاجسے اُفق نے خوددفن کر دیا تھا۔
پانچ سال پہلے…
جب اس دنیا میں کوئی کمپنی نہیں تھی،کوئی گھر نہیں تھا،کوئی چمک نہیں تھی صرف ایک چھوٹا کمرہ تھا…
اور دو لڑکیاں تھیں۔
اُفق اور مہر۔
وہ سایہ درحقیقت اُفق کی گزری ہوئی ذات تھی۔
وہ اُفق جو کبھی تھی۔
وہ لڑکی جو ٹوٹ کر چیخی نہیں،بس خاموش ہو کرخود سے چھپ گئی۔
اور اس نے خود کو وعدہ کیا تھا:کہ جو کمزور اُفق تھی وہ مر چکی ہے۔
لیکن وہ مری نہیں تھی۔
وہوقت کے کسی اندھیرے کونے میں بس ساکت کھڑی تھی اور اب لوٹ آئی تھی۔
اس رات کے بعداُفق نے مہر کو سب بتا دیا۔
مہر خاموش رہی۔
لمبے وقت تک۔
پھر آہستہ بولی:"شاید وہ واپس صرف اس لیے آیا ہےکیونکہ ہم بہت آگے آ چکے ہیں…اور ہماری جڑیں پیچھے رہ گئی ہیں۔"
وہاں سے ان کی اصل جدوجہد شروع ہوئی۔
کیونکہ جو صرف غربت سے نکلتا ہےوہ بھی لڑتا ہے…
لیکن جو خود سے نکلنے کی لڑائی کرےوہ روز ٹوٹتا ہے۔
ان کی سفر کی شروعات کوئی خواب نہیں تھا۔
وہ بھوک سے شروع ہوا تھا۔
ترقی نہیں…محض بقا۔
ان کے پاسایک پرانا لیپ ٹاپ تھاجس کی اسکرین آدھی جل چکی تھی۔
اکثر آدھی لائن نظر آتی اور آدھی انہیں خود سوچنی پڑتی۔
پہلا سال وہ سال تھاجس میں وہ دنیا کو نہں اپنے اندر کے خوف کو قائل کر رہی تھیں۔
مہر سستی چائے پی کررات بھر کام کرتی۔
اُفق ایسے لوگوں کو میل بھیجتی جو اسے جواب تک نہیں دیتے تھے۔
کئی باروہ دونوں خاموش بیٹھ جاتیں اور صرف چھت کو دیکھتیں۔
نہ بات…نہ آنسو…نہ شکایت…
کیونکہ شکایت کرنے کی بھیقیمت ہوتی ہےاور ان کے پاسوہ بھی نہیں تھی۔
سایہ اُفق کوہر رات خوابوں میں آتا۔
کہتا نہیں تھا،بس دیکھتا تھا۔
جیسے پوچھ رہا ہو:"کیا چھوڑنا واقعی ضروری تھا؟"
اور اُفق ہر باراور سخت ہو جاتی۔
وہ خود سے کہتی:"میں نے جذبات کو دفن کیا ہے۔میں اب کمزور نہیں رہ سکتی۔"
لیکن حقیقت یہ تھیکہ اس نے جذبات نہیں اپنی روح کو زنجیر لگائی تھی۔
اسی درد نےاسے مشین بنا دیا۔
وہ دن میں پڑھتی رات میں کام کرتی اور سحر کے وقت پھر سے خود کو جوڑنے کی کوشش کرتی۔
مہر اس کے لیےواحد دروازہ تھی جو اس دیوار میں کھلا رہ گیا تھا۔
وہ اسے اکثر کہتی:"ہم اگر روئیں گےتو آواز نہیں نکلونی چاہیے…کیونکہ دنیاکمزوری کی آوازبہت جلد پہچان لیتی ہے۔"
جب اُفق اور مہر نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنی زندگی کو دوسروں کی توقعات کے مطابق نہیں بلکہ اپنی صلاحیت کے مطابق ڈھالیں گی، تو ان کے پاس نہ کوئی بڑا سرمایہ تھا، نہ کوئی بزنس مین رشتہ دار، اور نہ ہی کوئی محفوظ راستہ۔ ان کے پاس صرف دو چیزیں تھیں: ایک دوسرے کا ساتھ… اور اپنا خواب۔
پہلا سال حقیقت میں خواب سے زیادہ ایک جنگ تھا۔ ایک خاموش، لمبی اور تھکادینے والی جنگ۔
شروع میں وہ دونوں ایک چھوٹے سے کمرے میں بیٹھا کرتیں۔ نہ یہ کوئی آفس تھا، نہ سٹوڈیو — صرف ایک تنگ سا کمرہ، ایک پرانا لیپ ٹاپ، ایک موبائل، اور ایک چائے کا کپ۔ وہیں سے سب شروع ہوا۔
اُفق کو مارکیٹنگ کی سمجھ تھی، اور مہر کو ڈیزائننگ اور تخلیق کا شوق۔ وہ دونوں نہ کوئی مہنگا کورس کر سکتی تھیں، نہ کسی KNAWLEDGE INSTITUTE کا خرچ اٹھا سکتی تھیں، اس لیے انہوں نے یوٹیوب، فری ویب سائٹس اور بلاگز سے سیکھنا شروع کیا۔ دن میں کلاسز، شام میں کام، اور رات کو یوٹیوب ٹیوٹوریلز… نیند ان کی عادت نہیں رہی تھی، بس ایک وقفہ بن گئی تھی۔
پہلے تین مہینے صرف سیکھنے میں گزر گئے۔ بلا معاوضہ۔ بلا شاباش۔ بلا حوصلہ افزائی۔
اکثر ایسا ہوتا کہ اُفق آدھی رات کو کہتی:
"ہم خود سے اتنی محنت اس لیے کر رہے ہیں کہ کوئی کل ہمیں کنٹرول نہ کرے۔"
اور مہر خاموشی سے مسکرا کر کام جاری رکھتی۔
چوتھے مہینے انہوں نے پہلا چھوٹا سا پروجیکٹ لیا۔ ایک آن لائن اسٹور کا لوگو ڈیزائن کرنے کا۔ پیسے؟ صرف دو ہزار روپے۔ لیکن وہ دو ہزار روپے ان کے لیے کسی خزانے سے کم نہ تھے۔ کیونکہ وہ ان کا پہلا خود کمایا ہوا اعتماد تھا۔
لیکن یہ اتنا آسان بھی نہیں تھا۔
اکثر کلائنٹس ان کو سنجیدگی سے نہیں لیتے تھے کیونکہ وہ کم عمر تھیں۔
کہتے:
"یہ تو بچے ہیں، ان سے کیا کام ہوگا؟"
یہ جملے کانوں میں زخم بن کر رہ جاتے… مگر وہ جواب دینا نہیں سیکھتی تھیں، وہ خاموش محنت کرتی تھیں۔
پانچویں مہینے اُنہوں نے اپنا ایک پیج بنایا — خود سے۔
نہ پروموشن پیسے کے ذریعے، نہ کسی بڑے انفلوئنسر کی مدد سے۔ بس اپنے کام کے تھرو۔ روز ایک پوسٹ، روز ایک سٹوری، روز محنت۔
اکثر لوگ مذاق بھی اُڑاتے۔ کہتے:
"مشہور ہونے کا شوق ہے؟"
مگر اُفق جانتی تھی کہ یہ شوق نہیں، یہ بقا ہے۔
چھٹے مہینے اُن کو پہلی بار بڑا آرڈر ملا، ایک چھوٹے لوکل برانڈ سے۔ لیکن مسئلہ یہ تھا کہ ان کے پاس پروفیشنل سامان نہیں تھا۔
نہ اچھا کیمرہ، نہ کمپیوٹر، نہ لائٹس۔
تو انہوں نے موبائل سے کام چلایا، رات کو چھت پہ جا کر قدرتی روشنی میں فوٹوز لیں، خود ایڈیٹنگ سیکھی، اور پانچ دن میں کام مکمل کیا۔
نتیجہ؟ کلائنٹ خوش۔
لیکن فیس بہت کم۔
پھر بھی وہ مطمئن تھیں۔ کیونکہ پہلا سال پیسہ کمانے کا نہیں، خود کو ثابت کرنے کا سال تھا۔
ساتویں سے نویں مہینے تک مسلسل ناکامیاں آئیں۔
دو بڑے پروجیکٹس ہاتھ سے گئے۔
ایک بار ایک کلائنٹ نے کام لے کر پیسے بھی نہیں دیے۔
کئی بار خود پہ شک ہوا۔
کئی بار اُفق روئی۔
کئی بار مہر نے خود کو روک کر اُفق کو نہیں رونے دیا۔
وہ ایک دوسرے کے لیے ڈھال بنیں، ایک دوسرے کا سہارا، ایک دوسرے کی حوصلہ۔
دسویں مہینے اُنہوں نے طے کیا کہ اب ہم صرف سروس نہیں دیں گی، بلکہ اپنا ایک برانڈ پہچان بھی بنائیں گی۔
انہوں نے ایک مختصر سا نعرہ بنایا، ایک سوچ، ایک شناخت۔
وہ صرف pages چلانا نہیں چاہتی تھیں، وہ کسی کی سوچ بدلنا چاہتی تھیں۔
خاص طور پر ایسی لڑکیوں کی جو وسائل نہ ہونے کی وجہ سے ہار مان لیتی ہیں۔
گیارہواں مہینہ مشکل ترین تھا۔
پیسے ختم۔
فون خراب۔
انٹرنیٹ مسئلہ۔
لیکن خواب زندہ۔
کبھی کبھار وہ دونوں ایک ہی چائے کے کپ کو شیئر کرتیں۔
ایک کو پیاس لگتی تو دوسری خاموش رہتی۔
آخری مہینہ… سال کا آخری مہینہ۔
ان کے پیج کو پہچان ملنی شروع ہوئی۔
چھوٹے آرڈرز بڑھنے لگے۔
لوگ میسج کرنے لگے:
"ہم آپ کے کام سے متاثر ہیں۔"
اور اُفق اُس دن بس اتنا بولی:
"پہلا سال ہم نے کوئی محل نہیں کمایا… مگر ہم نے خود کو جیت لیا۔"
اگر پہلا سال خواب کو زندہ رکھنے کی جنگ تھا، تو دوسرا سال اس خواب کو سانس دینے کا سال تھا۔
اب وہ صرف دو لڑکیاں نہیں رہیں تھیں جو ایک کمرے میں بیٹھی منصوبے بناتی تھیں…اب وہ دو لڑکیاں تھیں جن کے نام کے ساتھ ایک پہچان جڑنے لگی تھی۔
لیکن اصل مشکل یہاں سے شروع ہوئی۔
شہرت جتنا آہستہ آتی ہے، ذمہ داری اتنی ہی تیزی سے بڑھتی ہے۔
دوسرے سال کے آغاز پر اُن کے پاس اب کچھ مستقل کلائنٹس تھے، کچھ چھوٹے برانڈز جو بار بار واپس آتے تھے۔ مگر مسئلہ یہ تھا کہ اب اُن سے توقع بھی بڑھ گئی تھی۔ لوگ اب صرف کام نہیں دیکھتے تھے… لوگ perfection مانگتے تھے۔
اور perfection سستا نہیں ہوتا۔
ان کے پاس اب بھی کوئی بڑا سرمایہ نہیں تھا، صرف وہ تھوڑا سا پیسہ تھا جو پہلے سال کے آخر میں بچایا گیا تھا۔ وہ دونوں جانتی تھیں کہ اگر یہ پیسہ غلط استعمال ہو گیا، تو واپس صفر پر آ جائیں گی۔
ایک رات مہر نے کہا:
"اگر رسک نہیں لیا تو ہم یہیں رُک جائیں گے۔"
اُفق خاموش رہی، کیونکہ وہ جانتی تھی رسک کا مطلب کیا ہوتا ہے — مزید تکلیف، مزید خوف، مزید قربانی۔
لیکن پھر بھی اُنہوں نے فیصلہ کیا۔
انہوں نے ایک چھوٹا سا سٹوڈیو بنانے کا سوچا۔کوئی بڑا آفس نہیں، کوئی شیشے کی دیواریں نہیں… بس ایک مقام جہاں وہ اپنے خواب کو گھر سے الگ کر سکیں۔
کرایے کا ایک چھوٹا سا کمرہ لیا۔پرانا فرنیچر۔خود دیواریں پینٹ کیں۔لائٹس خود لگائیں۔اور جب پہلی دفعہ اُس کمرے میں بیٹھیں، تو مہر نے آہستہ سے کہا:
"یہ ہماری پہلی سرحد ہے… جو ہم نے خود بنائی ہے۔"
مگر سٹوڈیو بننے کے بعد مسئلے ختم نہیں ہوئے… بلکہ بدل گئے۔
اب صرف کام کرنے کی فکر نہیں تھی۔اب بجلی کا بل تھا۔انٹرنیٹ کا مسئلہ تھا۔کرایہ تھا۔ٹیکس کا الجھاؤ تھا۔اور سب سے بڑھ کر… لوگوں کی نظریں۔
کچھ لوگ حوصلہ دیتے۔
کچھ کہتے:
"دو لڑکیاں… زیادہ دیر نہیں چل پائیں گی۔"
اور یہ باتیں اُفق کو اندر ہی اندر چیرتی تھیں… لیکن وہ جواب دینا چھوڑ چکی تھی، کیونکہ اب وہ اپنا جواب اپنے کام سے دینے لگی تھی۔
دوسرے سال کے درمیان ایک بڑا موڑ آیا۔
ایک معروف لوکل برانڈ نے ان سے رابطہ کیا۔ایک پورا کیمپین پراجیکٹ۔کئی ہفتوں کا کام۔ہزاروں لوگوں تک پہنچنے کا موقع۔
لیکن شرط سخت تھی۔
ڈیڈ لائن کم۔
پریشر زیادہ۔
اور اگر کام خراب ہوتا، تو بدنامی بڑی۔
مہر ڈر گئی۔
اُفق خاموش ہوگئی۔
پھر اُس نے آہستہ سے کہا:
"ہم نے پہلے سال بقا کے لیے کام کیا… اب پہچان کے لیے کریں گے۔"
انہوں نے وہ پروجیکٹ قبول کیا۔
اگلے بیس دن اُن کی زندگی کے مشکل ترین دنوں میں سے تھے۔
صبح ساڑھے پانچ بجے آنکھ کھلتی۔
رات دو بجے سوتی تھیں۔
کبھی کبھی سانس لینے کا وقت بھی مشکل لگتا۔
مگر وہ کام مکمل ہوا۔
اور جب وہ کیمپین لائیو ہوئی…
لوگوں نے نام پوچھنا شروع کیا۔
"یہ کس نے بنایا؟"
"Detective who's behind this?"
اور پہلی بار اُفق نے اپنا نام بغیر ہچکچاہٹ لیا۔
اس کامیابی نے ان کے لیے دروازے کھولے۔
مزید کلائنٹس۔
بڑی آفرز۔
اور پہلا موقع کہ وہ کسی کو ملازمت بھی دے سکیں۔
انہوں نے کسی بڑی کمپنی کا پروفیشنل نہیں رکھا۔
انہوں نے ایک عام سی طالبہ کو رکھا۔
کیونکہ وہ جانتی تھیں کہ مواقع دینے والے کم ہوتے ہیں۔
دوسرے سال کی سب سے بڑی کامیابی پیسہ نہیں تھا…وہ یہ تھی کہ وہ اب کسی کے ماتحت خواب دیکھنا چھوڑ چکی تھیں۔
لیکن اس سال جذباتی زخم بھی گہرے تھے۔
کچھ رشتے ٹوٹے۔دوستنیں دور ہو گئیں۔لوگوں کو ان کی مصروفیت تکبر لگی۔اور کچھ کو ان کی خاموشی غرور۔
لیکن اُن کے پاس ایک دوسرے کا ساتھ تھا۔
رات کو جب تھک کر واپس آتیں، تو اکثر چھت پر بیٹھ کر چائے پیتیں۔
اور اُفق اکثر خاموشی سے یہی کہتی:
"ہم نے خود کو اس دنیا سے چھینا ہے… اب واپس نہیں دیں گے۔"
اور مہر بس مسکراتی…
کیونکہ وہ جانتی تھی…
دوسرا سال ختم نہیں ہوا تھا…
یہ صرف ان کی اصل پہچان کی شروعات تھی۔
تیسرا سال اُن دونوں کے لیے آسان نہیں تھا…یہ سال وہ تھا جب خواب صرف خواب نہیں رہتا،وہ ذمہ داری بن جاتا ہے۔
اور ذمہ داری ہمیشہ خوبصورت نہیں ہوتی۔
اب ان کا سٹوڈیو چھوٹا نہیں رہا تھا۔اب وہ لوگ نہیں تھے جو صرف پروجیکٹس کرتے تھے۔اب ان کا نام ایک کریئیٹو برانڈ بن چکا تھا۔
لوگ اب کہتے تھے:"اُفق اینڈ مہر کا سٹوڈیو"
یہ سننا خوشی دیتا تھا، لیکن اُفق کو معلوم تھا…نام کے ساتھ بوجھ بھی بڑھ جایا کرتا ہے۔
کمپنی کی مضبوط بنیاد
تیسرے سال کی ابتدا میں انہوں نے ایک اہم فیصلہ لیا۔
کام زیادہ ہونے لگا تھا۔
صرف وہ دونوں سب کچھ handle نہیں کر پا رہی تھیں۔
تو انہوں نے ٹیم بنائی۔
لیکن بڑی ٹیم نہیں…
بس وہی لوگ جن میں انہیں خود کی جھلک نظر آتی تھی:
• ایک گرافک ڈیزائنر• ایک ایڈمن مینیجر• ایک فنانس ہینڈلر• ایک انٹرن
پانچ لوگ۔چھ سمیت وہ دونوں۔
اب دفتر میں آوازیں آتی تھیں۔کی بورڈ کی ٹک ٹک۔
چائے کی خوشبو۔
اور دیواروں پر بڑے پوسٹر:
"Slow growth is still growth"
لیکن ٹیم بنانے کا مطلب تھا…
اخراجات میں کئی گنا اضافہ۔
اور یہاں پہلا بڑا امتحان شروع ہوا۔
گھر کا خواب
اسی سال ایک دن مہر نے اچانک کہا:
"ہم کب تک کرائے پر رہیں گی؟کیا ہم کبھی اپنا گھر بھی بنائیں گی؟"
اُفق نے جواب نہیں دیا۔
کیونکہ وہ جانتی تھی…
گھر، گاڑیاں اور مالز خواب نہیں ہوتے…
وہ سرمایہ مانگتے ہیں۔
اور سرمایہ صرف جذبے سے نہیں آتا…
حساب مانگتا ہے۔
انہوں نے فیصلہ کیا:
گھر ابھی فوراً نہیں…لیکن گھر کی زمین اس سال لینی ہے۔
تو انہوں نے ہر بڑی انکم کا صرف 20٪ اپنے لیے رکھا،
اور باقی سب کمپنی میں لگایا۔
مہینوں تک انہوں نے نئے کپڑے نہیں خریدے،
عیش سفر چھوڑ دیے،
اور راتوں کو دفتر میں سونا شروع کر دیا۔
اور آخرکار…
ایک چھوٹا سا پلاٹ خریدا۔
نہ محل تھا۔
نہ بڑا۔
لیکن وہ پہلا ٹکڑا تھاجو صرف ان کا تھا۔
گاڑی – آسائش نہیں، ضرورت
شروع میں وہ بس اور رکشے سے آتی جاتی تھیں۔پھر رکشے کی جگہ بائیک رکھی۔
لیکن اب کلائنٹس بڑے ہو گئے تھے۔
میٹنگز دور ہونے لگیں۔
تو تیسرا بڑا قدم تھا:
گاڑی۔
یہ کوئی مہنگی گاڑی نہیں تھی۔
سیکنڈ ہینڈ تھی۔
پر شارپ۔
سفید رنگ۔
سادہ۔
لیکن جب پہلی بار وہ اُس میں بیٹھیں،
تو مہر نے آہستہ سے کہا:
"یہ صرف گاڑی نہیں…یہ ہماری تھکن کا انعام ہے۔"
اور اُفق نے شیشے سے باہر دیکھتے ہوئے کہا:
"یہ ابھی صرف شروعات ہے…"
مالز کا خواب – ابھی نہیں، بیج بو دیا گیا
اسی سال کچھ سرمایہ کاروں نے تجربہ کے طور پر ان سے رابطہ کیا۔ایک چھوٹے شاپنگ زون میں۔
انہوں نے کہا:
"اگر آپ لوگ اپنی برانڈڈ سروسز یہاں لانچ کرنا چاہیں تو ہم پارٹنرشپ کر سکتے ہیں۔"
یہ وہ لمحہ تھا…
جہاں خواب مال کی طرف جا رہا تھا۔
لیکن انہوں نے فوراً ہاں نہیں کی۔
اُفق نے کہا:
"ہم ابھی اتنے بڑے نہیں ہوئے کہ ٹوٹ سکیں۔"
تو انہوں نے فیصلہ کیا:
ابھی مال نہیں…
لیکن مال کی بنیاد ڈالیں گے۔
انہوں نے چھوٹے pop-up اسٹورز لگانا شروع کیے۔
ایونٹس کیے۔
عارضی اسٹالز لگائے۔
اور پہلی بار انہوں نے دیکھا…
لوگ لائن میں کھڑے ہو رہے تھےان کے نام کے نیچے۔
مگر درد ختم نہیں ہوا
تیسرا سال صرف کامیابی نہیں تھا۔
یہ سال تھا:
• مسلسل دباؤ کا• خود پر شک کا• نیند کی قربانی کا• اور جذبات کے دَم گھٹنے کا
کبھی کبھی مہر دیوار سے ٹیک لگا کر رو دیتی۔
خاموش۔
بنا آواز۔
اور اُفق بس اس کے پاس بیٹھ جاتی۔
کچھ کہے بغیر۔
کیونکہ وہ جانتی تھی…
اس سفر میں سب سے بڑی طاقت…
بس ساتھ رہنا ہے۔
تیسرے سال کا اختتام
سال کے آخر میں:
لیکن سب سے بڑھ کر…
دو لڑکیاں جو اب صرف خواب نہیں دیکھ رہیں تھیں بلکہ خواب اُٹھا کر چل رہی تھیں۔
تیسرے سال کے آخر تک اُفق اور مہر کا نام پہچانا جانے لگا تھا۔سوشل میڈیا سے نہیں…بلکہ مارکیٹ سے۔
لوگ اب کہتے تھے:"ان کی کمپنی پر squat mat کرو، یہ لڑکیاں وعدہ پورا کرتی ہیں۔"
لیکن مسئلہ یہ تھا…
وعدہ پورا کرنے کے لیےسرمایہ بھی پورا چاہیے ہوتا ہے۔
اور ان کے پاس سرمایہ اب بھی محدود تھا۔
گھر – اب کرائے نہیں، اصل بنیاد
وہ پلاٹ جو تیسرے سال خریدا گیا تھا،چوتھے سال اس پر صرف دیواریں نہیں…ایک خواب کھڑا ہونا تھا۔
لیکن رقم؟
کافی نہیں تھی۔
تو پہلی بارانہوں نے بینک کا دروازہ کھٹکھٹایا۔
یہ اُن کی سب سے بڑی ہمت تھی۔
لوگ کہتے تھے لڑکیوں کو کاروبار میں لون نہیں ملتا…
انہیں یقین دلانا مشکل ہوتا ہے…
انہیں سنجیدہ نہیں لیا جاتا…
اور واقعی…
پہلے تین بینک نے انکار کر دیا۔
لیکن چوتھی جگہ اُفق نے فائل بند کیاور سیدھا آنکھوں میں دیکھ کر کہا:
"ہم بھاگنے نہیں آئیں۔ہم حساب دینے آئیں ہیں۔"
وہ لمحہ تھا جب لون منظور ہوا۔
چھوٹا نہیں…
پر اتنا کہ:
✅ گھر کی تعمیر شروع ہو سکے✅ اور کمپنی کو بھی سانس ملے
رات کو مہر نے چھت پر کھڑے ہو کر کہا:
"ہم اگر ڈوبے تو بھی اپنی مرضی سے ڈوبیں گے…"
اور اُفق بس مسکرائی۔
گھر بنانا آسان نہیں تھا۔
یہ صرف اینٹوں کی بات نہیں ہوتی،
یہ خواب کوزمین پر کھڑا کرنے کا درد ہوتا ہے۔
بارش میں مزدور کام کرتے،
گرمی میں سیمنٹ سوکھتا،
اور وہ دونوں ہر دن خود جا کر دیکھتیں:
کون سا کمره کہاں ہوگا،
دریچوں سے ہوا کیسے آئے گی،
اور روشنی کہاں سے گرے گی۔
یہ اُن کا محل نہیں تھا۔
یہ اُن کا قربانی نامچہ تھا۔
ہر دیوار میں نیندوں کی کمی چن دی گئی تھی۔
اب کمپنی صرف نام نہیں تھی۔
اب انہیں بڑے contract مل رہے تھے۔
Multi-million والے۔
لیکن بڑے پروجیکٹس کا مطلب تھا:
مزید لوگوں کی ضرورتمزید وسائلمزید خطرہ
تو انہوں نے ایک اور بڑی ڈیل کی۔
ایک ٹیک کمپنی کے ساتھپارٹنرشپ۔
لیکن شرائط سخت تھیں:
• ڈیڈلائن سخت• پنالٹی زیادہ• دباؤ کئی گنا
مہر نے کہا:
"ہم اتنا بڑا بوجھ نہیں اٹھا پائیں گے شاید…"
اُفق نے جواب دیا:
"آسان تو ہم نے کبھی چُنا ہی نہیں…"
اور انہوں نے سائن کر دیا۔
ایک چھوٹے mall میںانہیں پہلی بار مستقل outlet ملی۔
نہ عارضی اسٹالنہ pop-up
بلکہ ایک پکا اسٹور۔
اس کے لیے بھی قرض لینا پڑا۔risk لینا پڑا۔اور کئی راتیں بغیر نیند کے گزارنی پڑیں۔
افتتاح والے دنجب ان کا نام بورڈ پر جگمگایا:
"Afaq & Mehr Creative House"
مہر کی آنکھوں میں آنسو تھے۔
لیکن وہ رونے کے نہیں…
اس لمحے کو پی لینے کے آنسو تھے۔
گاڑیوں کی تبدیلی
اب پرانی گاڑی تھک چکی تھی۔
اور وہ جانتی تھیں…
جو خود ہی سفر سے تھک جائے
وہ آگے کا سفر نہیں کرا سکتی۔
تو ایک بزنس گاڑی لی گئی۔
لیکن پوری قیمت نہیں دی گئی۔
آدھی ادا کی گئی۔
باقی قسطوں پر۔
یہ فیصلہ آسان نہیں تھا۔
لیکن ضروری تھا۔
قرض کا بوجھ اور راتوں کی خاموشی
چوتھا سال خوبصورت لگتا تھا باہر سے…
لیکن اندر سے:
قرض ذمہ دارنیند کی کمی اور مسلسل ڈر
اکثر رات کو اُفق چھت پر جا کر بیٹھتی۔
شہر کو دیکھتی۔
اور خود سے کہتی:
"اگر آج نہ ہارے… تو کبھی نہیں ہاروں گی۔"
اور وہ واقعی نہیں ہاری۔
چوتھے سال کا اختتام
سال کے آخر تک:
✅ گھر اپنی چھت کے ساتھ کھڑا تھا✅ کمپنی بڑی ہو چکی تھی✅ لون چل رہا تھا مگر کنٹرول میں تھا✅ مال میں outlet بن چکا تھا✅ نئی گاڑی آ چکی تھی✅ نام شہر میں پہچانا جانے لگا تھا
لیکن سب سے اہم…
وہ دونوں اب صرف خواب دیکھنے والی لڑکیاں نہیں تھیں۔
وہ دو ایسی عورتیں بن چکی تھیں جو خوابوں کو زمین پر اتارتی ہیں۔
چوتھے سال کے آخر میں اُفق اور مہر کے پاس گھر تھا،کمپنی تھی،مال میں آؤٹ لیٹ تھااور لوگوں کی نظریں بھی۔
لیکن نظریں ہمیشہ دو طرح کی ہوتی ہیں:
کچھ دیکھ کر حوصلہ دیتی ہیں…اور کچھ دیکھ کر جلتی ہیں۔
پانچواں سال…ان نظروں کا امتحان تھا۔
جب کمپنی "اُفق" بنی
یہ فیصلہ مہر کا نہیں تھا۔یہ اُفق کا فیصلہ نہیں تھا۔
یہ فیصلہ ان کی محنت نے کروا دیا تھا۔
سرمایہ کاروں کی میٹنگ میں ایک بہت بڑا بزنس مین بولا:
"آپ دونوں بہت قابل ہیں،لیکن برانڈ تب بنتا ہےجب اس کے پیچھے ایک چہرہ اور نام ہو۔"
سب کی نظریں بغیر کچھ کہے اُفق پر گئیں۔
وہ گھبرا گئی۔محض ایک لمحے کے لیے۔
پھر آہستہ سے بولی:
"تو پھر…یہ نام اُفق ہی ہونے دیجئے۔"
اور وہ دن تھا جب کمپنی کا نام بدل کر رکھا گیا:
UFAQ ENTERPRISES
یہ صرف کمپنی نہیں بنی۔یہ پہچان بنی۔یہ شناخت بنی۔یہ ایک عہد بن گیا۔
اب ہر معاہدے پرہر ڈاکیومنٹ پرہر بورڈ پرایک ہی لفظ لکھا ہوتا:
U F A Q
جب وہ برانڈ بن گئیں
پانچویں سال میں انہوں نے صرف بزنس نہیں کیا…
انہوں نے خود کو برانڈ بنایا۔
اب ان کی کمپنی:
✅ تین شہروں میں پھیل چکی تھی✅ ان کا نام بزنس کانفرنسز میں لیا جاتا تھا✅ بڑی کمپنیاں خود ان سے ملنے آتی تھیں✅ اُن پر آرٹیکلز لکھے جا رہے تھے✅ نوجوان لڑکیاں ان سے متاثر ہو رہی تھیں
لیکن مہر اکثر کہتی تھی:
"یہ سب پرچم ہیں اُفق…اصل جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی۔"
اور وہ ٹھیک کہتی تھی۔
دشمنیاں — جب کامیابی زہر بنے
جو اوپر جاتا ہےوہ سب کو نظر آتا ہے…
اور جو سب کو نظر آئےوہ سب کو چبھتا بھی ہے۔
اب ان کے خلاف:
• جھوٹی افواہیں پھیلیں• بزنس کو بدنام کرنے کی کوششیں ہوئیں• کچھ لوگ ان کے کلائنٹس چھیننے لگے• کچھ نے جعلی کیسز کرنے کی پلاننگ کی
مارکیٹ میں سرگوشیاں تھیں:
"ان لڑکیوں کو اتنی جلدی اتنی کامیابی کیسے مل گئی؟"
کچھ کومحنت دکھائی نہیں دیتی۔
انہیں صرف نتیجہ دکھائی دیتا ہے۔
لیکن اُفق خاموش رہی۔
اس نے نہ کسی کو وضاحت دینہ کسی پر الزام لگایا۔
اس نے بس اپنا معیار اور اونچا کر دیا۔
خوابوں کی تکمیل کا دن
پانچویں سال کے آخری مہینے میں اُفق نے اپنی سب سے بڑی کانفرنس کی۔
پورے شہر کی بزنس کمیونٹی موجود تھی۔
وہ اسٹیج پر آئی سفید لباس میں سادہ مگر پر وقار۔
اور اس نے صرف ایک جملہ کہا:
"یہ کمپنی صرف کاروبار نہیں…یہ دو لڑکیوں کی ضد ہےکہ وہ ہارنے کو قبول نہیں کرتیں۔"
ہال خاموش ہو گیا۔
اس دن ان کی سال کی سب سے بڑی ڈیل فائنل ہوئی۔
ایک انٹرنیشنل پارٹنرشپ۔
وہ لمحہ تھاجب انہیں معلوم ہوا:
اب انہیں کوئی روک نہیں سکتا۔
پہچان جو صرف پیسوں سے بڑی تھی
پانچ سال میں:
✅ ان کا گھر مکمل ہو چکا تھا✅ گاڑیاں اپنی ملکیت میں تھیں✅ مال میں ان کی چین بن چکی تھی✅ کمپنی رجسٹرڈ برانڈ بن چکی تھی✅ ان کی کہانی میڈیا میں آ چکی تھی
لیکن سب سے بڑی بات؟
اب وہ صرف کامیاب نہیں تھیں…
وہ دوسروں کے لیےراستہ بن چکی تھیں۔
لڑکیاں اب انہیں دیکھ کر کہتیں:
"اگر وہ کر سکتی ہیں تو ہم بھی کر سکتے ہیں۔"
اور دشمن؟
ہاں…دشمن اب بھی تھے۔
اور زیادہ ہو گئے تھے۔
لیکن اب فرق یہ تھا…
اب دشمن ان کے راستے میں کھڑے نہیں تھے۔
اب وہان کے پیچھے رہ گئے تھے۔
پانچویں سال کا آخری منظر
رات تھی۔يونہی خاموش۔
اُفق چھت پر کھڑی تھی جہاں کبھی وہ پہلے سال بے خواب کھڑی رہا کرتی تھی۔
اب اس کے پاس سب کچھ تھا۔
مہر اس کے ساتھ کھڑی تھی۔
اور اُس نے آہستہ کہا:
"ہم نے سب کچھ حاصل کر لیا اُفق…مگر قیمت بھی بھاری دی۔"
اُفق مسکرائی۔
اور بولی:
"اور ہم نے شکایت نہیں کی۔"
یہ تھی اُفق اور مہر کی پانچ سالہ جدوجہد۔
درد سے پہچان تک خاموشی سے سلطنت تک اور اپنے وجود کو چننے تک۔
ی طرف سے چھوڑ دیے جانے کا زخم بھی۔
مہــر کی خالہ، جس کے سائے میں وہ پلی بڑھی تھی، ایک دن محض دو جملوں میں اسے گھر سے نکال دیتی ہے۔"اب تم ہمارے ساتھ نہیں رہ سکتیں… تمہاری وجہ سے ہمارے گھر کی بدنامی ہو رہی ہے۔"
مہــر خاموش رہ جاتی ہے۔نہ چیختی ہے، نہ روتی ہے۔بس اپنا بیگ اٹھاتی ہے… اور دہلیز پار کر کے ماضی کو پیچھے چھوڑ دیتی ہے۔وہی دہلیز، جہاں کبھی اس نے خواب دیکھے تھے… وہی دہلیز، جس نے آج اسے بے گھر کر دیا تھا۔
اور افق…اس کی ماں، جو اس کی سب سے بڑی طاقت ہوا کرتی تھی، وقت کی تلخی سے ٹوٹ چکی تھی۔قرضوں، طعنوں، اور سماج کے دباؤ نے اسے اجنبی بنا دیا۔ایک دن افق کو صرف اتنا کہا:"اب مجھے تم سے بھی سکون نہیں ملتا…"
وہ جملہ… افق کے اندر کچھ توڑ گیا۔
اسکی ماں دوسری شادی کرکے جا چکی تھی
اس کی بہن؟وہ بھی شادی کر کے اپنی نئی دنیا میں گم ہو گئی۔نہ وقت دیا، نہ پیچھے مڑ کر دیکھا۔یوں افق بھی آہستہ آہستہ اکیلا ہوتا چلا گیا۔
اور یوں پانچ برسوں کے اس طویل سفر میں…مہــر اور افق کے پاس اگر کچھ بچا…تو بس ایک دوسرے کا ساتھ۔
نہ خاندان،نہ سہارے،نہ دعائیں،نہ حوصلہ بڑھانے والے لوگ۔
صرف وہ دونوں…اور ان کا خواب۔
راتوں کو وہ دونوں اکثر چھت پر بیٹھا کرتے۔شہر کی روشنیاں نیچے جگمگاتیں، مگر ان کی دنیا اندھیروں سے بھری ہوتی۔
افق خاموشی سے بولتا:"لوگ سمجھتے ہیں ہم طاقتور ہیں…پر حقیقت یہ ہے، ہم نے بس درد کو مسکرانے پر مجبور کیا ہے۔"
مہــر جواب دیتی:"اور ایک دن یہ درد ہی ہمیں وہاں پہنچائے گا…جہاں لوگ صرف ہمارا نام بولیں گے، ہماری کہانی نہیں۔"
اپنی جدوجہد کو یاد کر کے کب انکی آنکھ لگی پتہ بھی نہ چلا
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
صبح کی روشنی شیشوں سے ٹکرا کر دفتر کے فرش پر بکھر رہی تھی۔یہ وہی دفتر تھا…جو کبھی صرف ایک خواب تھا۔
اور آج…یہ خواب افق کے نام سے جانا جاتا تھا۔
وہ کھڑکی کے پاس کھڑی تھی۔بال بکھرے نہیں تھے، مگر تھکن ان میں اب بھی چھپی ہوئی تھی۔وہ تھکن… جو پانچ سال کی جنگ کے بعد بھی مکمل ختم نہیں ہوئی۔
مگر اس کے چہرے کی مضبوطی…وہ تھکن پر بھاری تھی۔
پیچھے سے قدموں کی ہلکی آواز آئی۔
مہــر۔
"آج بھی جلدی آ گئی ہو…"
افق نے مڑ کر دیکھا۔مسکرائی نہ تھی،بس ہلکی سی سانس لی۔
"کیونکہ آج عام دن نہیں ہے، مہــر۔آج… میرا نام ایک بار پھر آزمائش سے گزرے گا۔"
مہــر اس کے پاس آ کر کھڑی ہو گئی۔"تمہارا نام تو اب خود ایک طاقت بن چکا ہے، افق۔اب آزمائش تمہاری نہیں ہوتی…لوگوں کی ہوتی ہے۔"
افق نے نیچے دیکھا۔دفتر کے باہر رپورٹرز، کیمرے،لوگ جو کبھی اسے پہچاننے سے انکاری تھےآج اس کی ایک جھلک کے لیے بےتاب تھے۔
"طاقت بننا آسان نہیں تھا، مہــر۔یاد ہے وہ دن جب ہم نے پہلی بار یہ دفتر دیکھا تھا؟خالی دیواریں…اور جیب میں صرف خواب؟"
مہــر ہلکی سی ہنسی ہنسی۔"اور چائے بھی ادھار ملتی تھی…"
افق کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ آئی،مگر آنکھوں میں ایک لمحے کو پرانی اداسی جھلک گئی۔
"اور آج…آج ہم وہی دنیا مکانے جا رہے ہیں جو کبھی ہمیں کمتر سمجھتی تھی۔"
اسی لمحے انٹرکام بجا۔
سیکرٹری کی نرم مگر سنجیدہ آواز:"میڈم افق…ایک خاتون آپ سے ملنے آئی ہیں۔کہتی ہیں کہ… وہ آپ کے ماضی کا حصہ ہیں۔"
مہــر چونک گئی۔
"خاتون…؟"
افق کا چہرہ سنجیدہ ہو گیا۔مسکراہٹ غائب ہو گئی۔
چند لمحوں کی خاموشی کے بعد بولی:"نام؟"
سیکرٹری کی آواز تھوڑی دھیمی ہو گئی:"انہوں نے اپنا نام بتایا ہے…صائمہ بی بی۔"
یہ سنتے ہی افق کی انگلیاں ہلکا سا کانپیں۔
مہــر نے آہستہ سے پوچھا:"کون ہے وہ…؟"
افق نے کھڑکی سے نظر ہٹائی۔اور آہستہ سے بولی:
"وہی…جس نے مجھے یہ سکھایا تھاکہ دنیا میں سب سے مشکل چیزاپنا حق مانگنا نہیں…بلکہ اسے ثابت کرنا ہوتا ہے…"
وہ سانس لے کر بولی:"انہیں اندر بھیج دو۔"
دروازہ آہستہ آہستہ کھلنے لگا…
;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;;
