Cherreads

Chapter 2 - UFAQ_CHAPTER 2

باب دوم: آہستگی سے اترتی روشنی

اتوار کا دن ہمیشہ اُفق کو مختلف لگتا تھا۔اس دن گھڑی بھی نرم چلتی تھی، آوازیں بھی کم ہو جاتی تھیں، اور لوگ… کچھ دیر کو انسان بن جاتے تھے۔

وہ صبح دیر سے اٹھی۔

کمرے میں نرم روشنی پھیلی ہوئی تھی۔کھڑکی کے پردے ہلکے ہلکے ہل رہے تھے۔اور اُفق…چپ چاپ بستر پر بیٹھی چھت کو دیکھ رہی تھی۔

آج کوئی اسکول نہیں تھا۔کوئی چہرہ نہیں تھا جسے برداشت کرنا پڑے۔کوئی سوال نہیں تھا جس کا جواب دینا ہو۔

صرف وہ تھی… اور اس کی خاموشی۔ اچانک اماں کمرے کا دروازہ کھول کے اندر ائی تھی اماں نے کہا:"جاؤ، ذرا سودا سلف لے آؤ۔ دودھ بھی ختم ہو گیا ہے۔" وہ بنا کچھ کہے اٹھ گئی تھی وہ صرف چودہ سال کی تھی لیکن اکثر گھر کا کچھ سامان لینے مارکیٹ اسکو ہی جانا پڑتا 

وہ اُٹھی، بال باندھے، اور اپنے پرس میں چند نوٹ ڈال کر باہر نکل آئی۔گروسری لینی تھی — مگر اصل میں اسے بس باہر نکلنا تھا۔

کیونکہ کبھی کبھیانسان گھر سے نہیں…اپنے آپ سے بھاگنے نکلتا ہے۔

دکان پر معمول کی بھیڑ تھی۔لوگ، آوازیں، بحث، اور چند نوٹوں پر لڑائیاں۔

اُفق چاوَل کے ریک کے سامنے کھڑی تھیجب کسی کا ہلکا سا سایہ اس کے برابر آ کر رُکا۔

اس نے گردن نہیں موڑی۔اسے پتہ تھا کون ہے۔

خاموشی میں بھی بعض لوگوں کی موجودگی پہچانی جاتی ہے۔

"آپ یہاں بھی اکثر آتی ہیں؟" 

مہر کی آواز دھیمی تھی۔درخواست نہیں تھی۔صرف سوال تھا۔

اُفق نے پیکٹ ٹوکری میں ڈالا۔

"اکثر نہیں… جب برداشت ختم ہو جائے تب آتی ہوں۔"

مہر ہلکی سی مسکرائی۔"یعنی آج پھر… کوئی چیز زیادہ ہو گئی؟"

اُفق نے پہلی بار اس کی طرف دیکھا۔

"لوگ۔"

مہر نے کچھ نہیں کہا۔بس سر ہلایا۔جیسے وہ جواب نہیں… سمجھ گئی ہو۔

گروسری کے بعد اُفق نے سیدھا پارک کا رخ کیا۔اتوار کی ہلکی دھوپ، سبز گھاس، چند بچے، چند ادھوری مسکراہٹیں۔

وہ پارک کی اُس بنچ پر جا کر بیٹھ گئیجہاں کم لوگ آتے تھے۔

اور تھوڑی دیر بعدمہر بھی آ گئی۔

نہ پوچھا، نہ اجازت لی۔بس خاموشی سے بیٹھ گئی۔

دونوں کے درمیان ایک فاصلہ تھا…جیسے دو کنارے ہوں۔

ایک دریا بیچ میں بہتا تھا۔

کچھ دیر تک کوئی کچھ نہیں بولا۔

صرف درخت بولتے رہے، ہوا بولتی رہی، زندگی بولتی رہی۔

پھر مہر نے آہستہ سے کہا:

"کیا آپ کو کبھی ایسا لگتا ہے…کہ دنیا بہت شور کرتی ہےاور ہم… بس سن تھک جاتے ہیں؟"

اُفق کی نظریں سامنے گھاس پر تھیں۔

"نہیں…مجھے لگتا ہے دنیا شور نہیں کرتی…ہم زیادہ سن لیتے ہیں۔"

مہر نے اسے دیکھا۔

"اور سننا بند کیوں نہیں کرتے؟"

اُفق نے ہلکا سا سانس لیا۔

"کیونکہ خاموش ہو جانا آسان ہے…خود کو بے حس کرنا مشکل ہوتا ہے۔

مہر نے زمین سے ایک خشک پتہ اٹھایا۔

"آپ تنہا کیوں رہتی ہیں؟"وہ ایک دم بولی۔

اُفق نے آنکھیں نہ ملائیں۔

"کیونکہ لوگ اپنی سہولت کے لیے آتے ہیں،اور جب آپ مشکل بن جائیں…تو آپ کو 'بوجھ' کہہ کر چھوڑ جاتے ہیں۔"

مہر کی آواز ہلکی ہو گئی۔

"اور اگر کوئی جان بوجھ کر رُک جائے… تو؟"

اُفق پہلی بار اس کی طرف مڑی۔

مہر کی آنکھوں میں سوال نہیں تھا…انتظار تھا۔

"تو شاید وہ بے وقوف ہو گا…"اُفق نے کہا"یا… درد کا عادی۔"

مہر نے ہلکے سے مسکرا کر جواب دیا:

"یا شاید وہ سمجھدار ہو…کیونکہ جو لوگ ٹوٹے ہوتے ہیںوہی اصل میں صحیح طرح سن پاتے ہیں۔"

ایک بار پھر دونوں خاموش ہو گئیں۔

مگر اب وہ خاموشی خالی نہیں تھی۔اس میں سوال تھے، زخم تھے،اور ایک انجانی سی شفقت بھی۔

اُفق نے آہستہ سے پوچھا:

"تم ہر بار میرے پاس کیوں آ جاتی ہو؟"

مہر نے آسمان کی طرف دیکھا۔

"کیونکہ کچھ لوگ آسمان جیسے ہوتے ہیں…""دور، خاموش، بڑے…""اور جب دل گھٹنے لگےتو بس اُنہیں دیکھ کر سانس آ جاتا ہے۔"

اُفق نے کوئی جواب نہیں دیا۔

بس نظریں جھکا لیں۔ تبھی مہر نے محسوس کیا کے وہ اٹھ چکی ہے اب وہ پارک سے باہر نکل رہی تھی جبکہ مہر اسکو عقیدت سے جاتے ہوئے دیکھتی رہی

....

رات بھر بارش ہلکی ہلکی برستی رہی تھی…اور صبح جب اُفق کی آنکھ کھلی تو کھڑکی کے شیشوں پر پانی کے باریک قطرے لگے ہوئے تھے۔آسمان مکمل صاف نہیں تھا، ہلکے سرمئی بادل ابھی بھی موجود تھے، جیسے رات کا اثر ابھی پوری طرح گیا ہی نہ ہو۔

ہوا میں نمی تھی…اور زمین سے مٹی کی خوشبو اٹھ رہی تھی۔

اُفق بستر پر لیٹی چھت کو دیکھتی رہی۔نیند پوری نہیں ہوئی تھی مگر خواب بھی اب دھندلا سا ہو چکا تھا۔صرف ایک احساس باقی تھا…ایک ٹھنڈا، بھاری سا احساس۔

اس نے کروٹ بدلی۔آنکھیں بند کیں۔لیکن جیسے ہی بند کیں، وہی اندھیرا…وہی خاموش آوازیں…وہی سرد ہوا…

اُفق فوراً اٹھ بیٹھی۔

"نہیں… آج نہیں…"اس نے خود سے آہستہ کہا۔

،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،

جب وہ گھر سے نکلی تو گلی میں ابھی بھی پانی کے چھوٹے چھوٹے جوہڑ بنے تھے۔ہر قدم پر ہلکی چھپاک کی آواز آتی۔

درختوں کے پتے دھلے ہوئے لگ رہے تھے۔آج ہوا تھوڑی تیز تھی۔لیکن گرم نہیں تھی…ٹھنڈی بھی نہیں…بس اداس۔

روڈ پر گاڑیوں کا شور معمول سے تھوڑا کم تھا۔جیسے شہر بھی آہستہ آہستہ جاگ رہا ہو۔

اُفق نے محسوس کیا…کہ آج ہر چیز میں خاموشی کچھ زیادہ ہے۔ 

اُفق آہستہ آہستہ گیٹ سے اندر آئی۔بیگ کندھے پر تھا،قدم ہلکے… پر ذہن بھاری۔

کیمپس میں معمول کی گہماگہمی تھی…کچھ لڑکیاں ہنس رہی تھیں،کچھ جلدی میں تھیں،اور کچھ صرف چہروں پر ماسک لگا کر زندگی گزار رہی تھیں۔

اور مہر…وہ حسبِ معمول درخت کے نیچے بیٹھی تھی۔

نوٹ بُک کھلی ہوئیبال قلم ہاتھ میںمگر آنکھیں دور کہیں کھوئی ہوئی۔

اُفق رک گئی۔

وہ اکثر اسے دیکھتی تھی…مگر آج نہ جانے کیوں قدم خود بخود اس کے قریب چلے گئے۔

"تم ہمیشہ یہاں کیوں بیٹھتی ہو؟"

اُفق کا سوال ہلکا تھا، مگر اس میں ایک وزن تھا۔جیسے کوئی بات کافی دنوں سے دل میں رکی ہو۔

مہر نے نظر اٹھائی۔

ہلکی سی مسکراہٹ آئی، وہ مسکراہٹ جو صرف چہرے پر نہیں ہوتی — سانسوں میں بھی ہوتی ہے۔

"کیونکہ یہاں شور کم ہوتا ہے…اور خاموشی اتنی…کہ بندہ خود کو سن سکے۔"

اُفق خاموش ہوگئی۔

وہ اس خاموشی کی عادی نہیں تھی،مگر مہر کی خاموشی میں عجیب سی گرمی تھی۔

وہ مہر کے برابر بیٹھ گئی۔

کچھ لمحے دونوں خاموش رہیں…صرف ہوا بول رہی تھی…اور پنکھے پتوں میں سرگوشیاں کر رہے تھے۔

پھر مہر نے ہی بات شروع کی۔

"تم ایسی لگتی ہو… جیسے دنیا دیکھ رہی ہو…لیکن خود کو نہیں دیکھ پا رہی۔"

اُفق نے چونک کر اسے دیکھا۔

"تمہیں لوگ ایسے ہی لگتے ہیں؟"اس نے ہلکے لہجے میں پوچھا۔

مہر نے کندھے اچکائے۔

"نہیں…صرف وہ لوگ،جن کی آنکھوں میں سوال بہت ہوتے ہیں۔"

اُفق نے آہستہ سے سانس خارج کی۔

"اور تم؟تمہارے سوال کہاں ہیں؟"

مہر تھوڑا سا مسکرائی،پھر آسمان کی طرف دیکھنے لگی۔

"میرے سوالوں نے بات کرنا چھوڑ دیا ہے…اب وہ صرف مجھے دیکھتے ہیں۔"

اُفق خاموش رہی۔اسے پہلی بار لگا…کسی نے اس کے اندر جھانکنے کی کوشش نہیں کی…بلکہ اس کے ساتھ بیٹھ کر خاموش ہونے کی ہمت کی ہے۔

"اور اگر کوئی خود کو دیکھ بھی لے تو؟"اُفق نے پوچھا۔

مہر نے اس کی طرف دیکھا۔

"پھر مسئلہ یہ نہیں رہتاکہ تم کیا بنو گی…اصل مسئلہ یہ ہوتا ہے…کہ تم خود سے بے ایمانی نہ کرو۔"

ہوا تیز ہوئی۔

پتوں نے آواز کی۔

اور اُس لمحے اُفق کو لگا،جیسے وقت تھوڑا سا رک گیا ہو…

نہ کوئی خواب،نہ کوئی ڈر،صرف ایک خاموش حقیقت —کہ کچھ لوگ اپنی باتوں سے نہیں،اپنی موجودگی سے آپ کو بدلنا شروع کر دیتے ہیں۔

,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,

وہ شمولیت جس کا اعلان نہیں ہوتا

کچھ رشتے اجازت نہیں مانگتے…وہ بس آ کر بیٹھ جاتے ہیں۔دل کے کسی کونے میں،جہاں پہلے ہم نے کبھی کسی کو بٹھایا ہی نہیں ہوتا۔

مہر بھی ایسے ہی آئی تھی۔

نہ زبردستی۔نہ ہنگامے سے۔نہ کسی خواہش کے شور کے ساتھ۔

وہ آئینہ نہیں تھی کہ سامنے کھڑی ہو کر خود دکھائے…وہ ہوا تھی…جو آہستہ آہستہ رگوں میں اتر جاتی ہے۔

اور اُفق؟اُس نے محسوس ہی نہیں کیا…کہ کب اس کی تنہائی میں کوئی سانس لینے لگا۔

وہ چھوٹی چھوٹی آمدیں

شروع شروع میں مہر صرفراستے میں نظر آتی تھی۔

کبھی بس میں پیچھے والی سیٹ پر۔کبھی کوریڈور کے آخری سرے پر۔کبھی لائبریری کی کھڑکی کے پاس۔

نہ سلام میں لجاجت۔نہ نظر میں سوال۔

بس موجودگی۔

اور بعض انسانوں کی موجودگیشور نہیں کرتی…وہ ماحول بدل دیتی ہے۔

اُفق کو عجیب سی بات یہ لگی…کہ مہر نے کبھی اپنی قربت کو مسلط نہیں کیا۔

وہ نہ بات ٹھونستی تھینہ سوالوں سے اذیت دیتی تھی۔

بس ایسے پاس رہتی تھی جیسےکسی کتاب کا نشان…

جو ہر صفحے پر نہیں ہوتامگر ہمیشہ وہی رہتا ہے۔

کچھ باتیں جو بغیر نام کے رشتہ بناتی ہیں

اُفق کو دوست بنانا نہیں آتا تھا۔وہ رشتوں کے نام سے ہی تنگ آ جاتی تھی۔

اس کے نزدیک:دوست = توقعاور توقع = مزید درد۔

اسی لیے وہ مہر کو کبھی "دوست" نہیں کہتی تھی۔

لیکن…

وہ کتاب خریدنے جیسی بات مہر سے کرنے لگی تھی۔وہ موسم کی تبدیلی پر اس کے ساتھ سر اُٹھا کر آسمان دیکھنے لگی تھی۔وہ بس کی ونڈو سیٹ اُس کیلئے چھوڑنے لگی تھی۔

وہ سب کچھ جو وہ کسی کے لیے نہ کرتی تھی…اب بغیر سوچے مہر کے لیے ہو جاتا تھا۔

اور سب سے عجیب بات؟

اُسے اس کا شعور تک نہیں تھا۔

لا شعور کی دوستی

ایک دن اچانک مہر نے پوچھا:

"اُفق… تمہیں کاپی میں نیلی سیاہی پسند ہے نا؟"

اُفق چونکی۔

"تمہیں کیسے پتہ؟"

مہر نے کندھے اچکائے۔

"لوگ جن کے اندر طوفان ہوتے ہیںوہ زیادہ تر نیلا چنتے ہیں۔کیونکہ وہ رنگ چیختا نہیں…سمجھاتا ہے۔"

اُفق نے اس لمحے پہلی بار سوچا…

"یہ لڑکی… مجھے کتنا جاننے لگی ہے؟اور مجھے پتہ بھی نہیں چلا۔"

وہ دوستی جو لفظوں کی محتاج نہیں ہوتی

وہ ابھی بھی دوست نہیں کہتی تھی۔

نہ زبان سےنہ دل سے۔

لیکن اُس کے بیگ میںدو اضافی ٹوفیاں رہنے لگیں۔اگر مہر کو سردی لگے تو۔

کلاس سے پہلے اگر بارش شروع ہو جائےتو وہ سب سے پہلے یہی سوچتی تھی:

"اس کے پاس شال ہوگی یا نہیں؟"

اور جب مہر نظر نہ آتی تواُفق کے دل میں عجیب سا خلا بن جاتا۔

نہ درد…نہ گھبراہٹ…

بس ایک ادھوراپن۔

غیر ارادی اعتراف

ایک دن چھت پر مہر نے آہستہ سے کہا:

"تم جانتی ہو اُفق…تم مجھے دوست نہیں کہتیں،مگر تمہارا خاموش رہنامیرے لیے سب سے بڑی قبولیت ہے۔"

اُفق نے کوئی جواب نہیں دیا۔

وہ صرف آسمان دیکھتی رہی۔

لیکن اس کے دل میںایک بات آہستہ سے ابھری…

"میں نے بغیر جانےایک دوست بنا لی ہے…اور وہ بھی ایسی…جو شور نہیں کرتیبلکہ اندر ٹھہرتی ہے۔"

اور اُفق کو احساس تک نہیں ہواکہ وہ جسے ہمیشہتنہائی کا انتخاب کہتی آئی تھی…

وہ ابکسی کے ساتھ سانس لینے لگی ہے۔

,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,

وہ دن عام نہیں تھا…لیکن خاص بھی نہیں تھا۔بس انہی دنوں جیسا تھا، جو بغیر زور دیے دل پر نشان چھوڑ جاتے ہیں۔

صبح

صبح نے خود کو ہلکے ہلکے کھولا۔بادل دھلے ہوئے تھے… جیسے نامکمل یادیں۔ہوا میں نمی تھی مگر ٹھنڈ نہیں — ایک ایسا موسم جیسے کوئی سوال، جس کا جواب ابھی باقی ہو۔

اُفق چھت پر کھڑی تھی۔بال بکھرے، موبائل بند، نظریں دور کہر کے اس پار۔وہ ہمیشہ ایسے ہی دن شروع کرتی تھی… خاموش۔

تبھی نیچے سے آواز آئی:

"اوئے… صبح کی چائے ہو گئی یا آج بھی خاموشی پر گزارا ہے؟"

یہ مہر تھی۔آواز میں ہنسی نہیں تھی، مگر سختی بھی نہیں۔بس ایک عجیب طرح کی موجودگی۔

اُفق نے نیچے دیکھا۔

مہر ہاتھ میں کپ لیے کھڑی تھی،بال ابھی بھی گیلی چٹیا میں بندھے،جیسے پورے گھر میں سب جاگ گئے ہوں، سوائے اُفق کے۔

"چائے اوپر لا کے دے دو۔ نیچے آنے کا موڈ نہیں۔"اُفق نے بس اتنا کہا۔

عام سا جملہ…مگر مہر کے لیے اجازت نامہ تھا۔

اور وہ بغیر کچھ کہے… اوپر آ گئی۔

چھت پر

چھت پر خاموشی اور ہوا کے سوا کچھ نہ تھا۔

مہر نے کپ سامنے رکھا اور خود فرش پر بیٹھ گئی۔

"تجھے کیا لگتا ہے، لوگ اتنا کیوں بولتے ہیں؟"

اُفق نے اُسے دیکھا،پھر دور آسمان کو:

"شاید اس لیے کہ اُن کے اندر سنّاٹا ہوتا ہے… اور سنّاٹے سے ڈر لگتا ہے۔"

مہر ہلکا سا مسکرائی۔

"اور جو چپ رہتے ہیں؟"

"وہ شاید اپنے سنّاٹے سے دوستی کرلیتے ہیں۔"

وہ دونوں خاموش ہو گئیں۔

لیکن یہ خاموشی بھاری نہیں تھی۔یہ ایسی تھی جیسے دو اجنبی ایک ہی کھڑکی سے بارش دیکھ رہے ہوں۔

اُفق کو اندازہ بھی نہیں ہوا…کہ یہ خاموشی، کسی تعلق کی پہلی سانس تھی۔

کینٹین

کالج میں ہمیشہ شور ہوتا تھا،ہنستی ہوئی آوازیں، ٹرے کھڑکنے کی آواز،اور بے مطلب باتیں۔

اُفق ہمیشہ ایک کونے میں بیٹھتی تھی۔

اُس دن بھی وہی کیا۔لیکن اس بار…

مہر اس کے سامنے آ کر بیٹھ گئی۔

"تیری یہ والی جگہ اچھی ہے… یہاں شور بھی کم سنتا ہے اور لوگ بھی کم نظر آتے ہیں۔"

اُفق نے بس سر ہلایا۔

"میں زیادہ بولتی نہیں ہوں۔ تم بور ہو جاؤ گی۔"

مہر نے اس کی طرف دیکھا۔

"مجھے شور سے مسئلہ ہے، خاموشی سے نہیں۔ اور تم خاموش ہو… بور نہیں۔"

یہ جملہ چھوٹا تھا۔مگر کہیں اندر، اُفق کے دل میں رک گیا۔

وہ دوست نہیں بنی تھی ابھی…نہ اُس نے مانا، نہ اُس نے قبول کیا۔

مگر وہ سامنے بیٹھ گئی تھی۔

اور یہ کافی تھا۔

بس کا سفر

واپسی پر بس بھر چکی تھی۔لوگوں کی گرمی، سانسوں کی بو، ہارن کی آواز۔

اُفق کھڑکی سے باہر دیکھ رہی تھی۔

مہر اس کے ساتھ کھڑی تھی۔

ہجوم کے درمیان مہر نے دھیرے سے کہا:

"تمہیں لوگوں سے نفرت ہے؟"

اُفق نے فوراً نہیں جواب دیا۔

پھر آہستہ بولا:

"نہیں… بس کچھ لوگ بہت خالی ہوتے ہیں، اور اپنی خالی جگہ دوسروں میں بھرنا چاہتے ہیں۔"

"اور تم کیا کرتی ہو؟"

"میں اپنی خالی جگہ کو خود ہی سنبھال لیتی ہوں۔"

مہر مسکرا دی۔

وہ کچھ نہیں بولی۔بس تھوڑا قریب کھڑی ہو گئی۔

بغیر کسی دعوے کے۔

گلی کا منظر

شام کو گلی میں ہلکی سی اندھیرا پھیل رہا تھا۔لوگوں کے دروازے بند ہو رہے تھے،چائے کی خوشبو، بچوں کا شور۔

اُفق آہستہ آہستہ چل رہی تھی۔

پیچھے سے مہر آئی:

"آج تیز نہ چلا کرو۔ دن پہلے ہی بھاری ہے۔"

اُفق نے سوالیہ نظر سے دیکھا۔

"تمہیں کیسے پتا چلا؟"

مہر نے کندھے اچکائے۔

"کچھ چہرے بولتے نہیں… مگر اُن کا وزن محسوس ہو جاتا ہے۔"

اُفق نے ہلکا سا سانس لیا۔

اور پہلی بار…

اسے عجیب سا سکون ملا۔

رات… چھت

رات کو پھر وہی چھت۔

مہر کپوں کے ساتھ آ گئی۔

ایک لمحہ آیا جب اُفق نے خود سوال پوچھا:

"تم روز کیوں آ جاتی ہو؟"

مہر نے آہستہ سے کہا:

"پتا نہیں… شاید اس لیے کہ تم مجھے جانے نہیں کہتیں… اور میں بھی زبردستی نہیں آتی۔"

اُفق نے کچھ نہیں کہا۔

لیکن وہ چپ چاپ بیٹھے رہنا…باتوں کا ہونا…یہ سب لاشعور میں ایک رشتہ بُن رہا تھا۔

نام کے بغیر۔

دعوے کے بغیر۔

وہ اب بھی اُسے دوست نہیں کہتی تھی…نہ مانتی، نہ مانگتی۔

لیکن مہر، اُس کی زندگی کے معمول میں شامل ہو چکی تھی۔

ایسے جیسے کسی کمرے میں روشنی ہو،اور انسان کو دیر بعد احساس ہوکہ یہ اندھیرا نہیں تھا۔

....

کالج کا دن عام سا شروع ہوا تھا،موسم ادھورا سا تھا — نہ پوری دھوپ، نہ پوری چھاؤں۔ہوا میں وہ عجیب سی گھٹن تھیجیسے کسی بات سے پہلے ماحول خود سانس روک لیتا ہے۔

کینٹین حسبِ معمول بھری ہوئی تھی۔آوازوں کا ہجوم، قہقہوں کی تھکن، چمچوں کی جھنجھناہٹ۔

اُفق حسبِ عادت ایک طرف بیٹھی تھی۔سامنے کتاب کھلی تھی مگر نظر نہیں تھی۔سوچ کہیں اور بھٹکی ہوئی تھی۔

اور مہر…آج خاموش نہیں بیٹھی تھی۔

سامنے والی ٹیبل پر دو لڑکیاں بیٹھی تھیں۔وہ وہی تھیں…جو بات کم اور زہر زیادہ گھولتی ہیں۔

ایک نے آہستہ مگر جان بوجھ کر اونچی آواز میں کہا:

"کچھ لوگوں کو پتہ نہیں ہوتا وہ ہیں کیا… اور یہاں آ کر اترا رہے ہوتے ہیں۔"

دوسری مسکرائی:

"اور کچھ تو بس بغیر بلائے ہر جگہ ٹپک پڑتے ہیں…"

مہر نے فوراً سر اٹھایا۔آنکھوں میں وہی خاموش آگ،جو بڑے دنوں سے دبائی جا رہی تھی۔

اس نے آرام سے کہا:

"اگر بات کسی کے لیے ہے… تو سامنے بیٹھ کر کرو۔ پیچھے بھونکنے سے بات بڑی نہیں ہو جاتی۔"

ایک لمحے کو کینٹین خاموش ہو گئی۔

ان میں سے ایک اٹھی:

"تم کون ہوتی ہو بیچ میں بولنے والی؟ تمھارا نام لیا کسی نے؟"

مہر کھڑی ہو گئی۔

"نام نہ لینا تمہاری کمزوری ہو سکتی ہے… لیکن بات گھمانا نہیں سکھاتی۔"

بات تیز ہو گئی۔لفظ نوکیلے۔آوازیں اونچی۔

لوگ تماشہ دیکھنے لگے۔

اور اُفق…ابھی خاموش تھی۔

لیکن اس کی آنکھیں اب ہٹ نہیں رہی تھیں۔

ان میں سے ایک لڑکی نے ہنستے ہوئے کہا:

"ویسے تم اکیلی تو نہیں ہو… تمہاری وہ خاموش دوست کہاں ہے؟

ہر وقت چھاؤں بن کر بیٹھی ہوتی ہے۔"

یہ سنتے ہی ماحول میں جیسے کوئی لکیر کٹی۔

اُفق نے آہستگی سے کتاب بند کی۔

کرسی سرکنے کی آواز…جو پورے شور کو کاٹ گئی۔

وہ اٹھی۔

اور سیدھا آگے بڑھی۔

کوئی جلدی نہیں۔کوئی گھبراہٹ نہیں۔

بس ایک بھاری قدم…ایک اور…پھر ایک اور۔

لوگ ساکت ہوتے چلے گئے۔

مہر نے پلٹ کر اُسے دیکھا…

یہ پہلی بار تھاکہ اُس نے اُفق کو ایسے کھڑا ہوتے دیکھا تھا۔

اُفق سامنے جا کر رکی۔بالکل اُن کے سامنے۔

نہ چیخی۔نہ آواز اونچی کی۔

بس آہستہ سے بولی:

"دو باتیں ہیں…

ایک — کسی کی خاموشی کو کمزوری مت سمجھودوسری — اور اگر کسی کو چھیڑا ہے تو اب پیچھے ہٹنے کا ڈارمہ مت کرو۔"

وہ لڑکی ہنسی:

"تو کیا کر لو گی؟"

اُفق کے لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ آئی۔لیکن وہ مسکراہٹ نرم نہیں تھی…

وہ مسکراہٹ خطرناک تھی۔

"میں کچھ نہیں کروں گی…""ضرورت ہی نہیں ہو گی۔""کچھ لوگ خود کو ہی کافی نقصان دے جاتے ہیں — بغیر چھوئے۔"

پورا کینٹین خاموش تھا۔

ہوا رکی ہوئی تھی۔

اب اُس کی آواز میں وزن تھا،قدرتی غرور نہیںبلکہ وہ اختیارجو صرف وہ لوگ رکھتے ہیںجنہوں نے بہت کچھ خاموشی سے سہا ہو۔

لڑکیاں بات بدل کر پیچھے ہٹ گئیں۔

لوگ آہستہ آہستہ بیٹھنے لگے۔

لیکن مہر اُفق کو دیکھ رہی تھی۔

جیسے وہ پہلی بار اسے واقعی دیکھ رہی ہو۔

"تم کبھی بتاتی نہیں، تم یہ سب بھی ہو۔"مہر نے آہستگی سے کہا۔

اُفق نے نظریں دوسری سمت رکھیں۔

"میں کچھ بتاتی نہیں…کیونکہ کچھ چیزیں بتانے کے لیے نہیں ہوتیں،صحیح وقت پر… خود ظاہر ہو جاتی ہیں۔"

وہ لمحہ

وہ واپس اپنی جگہ بیٹھ گئیں۔

لیکن کچھ بدل چکا تھا۔

اُفق نے آج پہلی بار کسی کے لیے قدم آگے بڑھایا تھا۔کسی کے لیے آواز پیدا کی تھی۔کسی کے لیے اپنا سایہ بڑا کیا تھا۔

اور مہر…

خاموشی سے مسکرائی۔

نہ شکریہنہ تعریف

لیکن اس کی آنکھوں میں وہ بات تھی:

"آج مجھے پتہ چلا… تم صرف خاموش نہیں ہو… تم خطرناک بھی ہو۔"

,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,

اور پھر یہ سلسلہ رُکا نہیں…

اس دن کے بعد…ماحول نے جیسے اُفق کا نام خود سیکھ لیا تھا۔

نہ اُس نے اپنا تعارف کروایانہ کسی کو ضرورت پڑی پوچھنے کی۔

بسایک خاموش سا پیغام پھیل گیا تھا:

"اگر مہر کے قریب ہوا… تو اُفق پاس ہی ہو گی۔"

اور عجیب بات یہ تھی…یہ وعدہ اُس نے کبھی کیا بھی نہیں تھا۔

وہ بس…از خود…مہر کی ڈھال بنتی جا رہی تھی۔

جیسے بغیر بتائےکسی نے اُس کی زندگی میں ایک ذمہ داری رکھ دی ہو۔

پہلا منظر —

اردو پیریڈ تھا۔ٹیچر باہر گئیں تو کلاس میں شور پھیل گیا۔

پیچھے کی بنچ سے کسی نے بلند آواز میں کہا:

"آج کل تو مہر بہت بولنے لگ گئی ہے… پہلے تو صرف چپ چاپ بیٹھی رہتی تھی۔ اب بڑا حوصلہ آ گیا ہے لگتا ہے۔"

ہنسی گونجی۔

مہر نے پلٹ کر دیکھا۔

اُفق نے قلم رکھ دیا۔

خاموشی سے۔

اور پھر پیچھے مڑ کر صرف اتنا کہا:

"حوصلہ بولنے سے نہیں آتا…حوصلہ تب آتا ہے جب انسان فیصلہ کر لے کہ وہ کسی کے خوف پر زندہ نہیں رہے گا۔"

وہ لڑکا ہنسا۔

"او دیکھو دیکھو… باڈی گارڈ بول پڑی۔"

اُفق خاموش رہی۔

ایک لمحہ…

پھر کھڑی ہوئی۔

سب ساکت۔

وہ آہستہ آہستہ اُس کی طرف بڑھی۔کوئی چیخ نہیںکوئی غصہ نہیں

بس قدموں میں وزن۔

اور اُس کے قریب جا کر بولی:

"میں باڈی گارڈ نہیں ہوں…میں وہ ہوں جو تم جیسے لوگوں کو صرف موقع دیتی ہوں کہ خاموش ہو جائیں۔"

وہ لڑکا طنز سے مسکرایا:

"اور اگر میں نہ ہوں تو؟"

اُفق نے سر تھوڑا سا جھکایا۔

اور دھیرے سے کہا:

"پھر تم خود پچھتاؤ گے کہ کاش ہو جاتے۔"

وہ ہنسی۔

لیکن پانچ منٹ بعد…اُس کی کرسی بدلی جا چکی تھی۔اور اُس دن کے بعدوہ اُس سمت دیکھتا بھی نہیں تھا۔

دوسرا منظر — 

چھٹی کے بعد گلی میں دو لڑکیاںمہر کو گھیر کر کھڑی ہو گئیں۔

بات شروع ہوئی مذاق سے،پھر طنز سے،پھر زہر سے۔

"تم ہر جگہ اپنے آپ کو گھسا دیتی ہو، تمہیں شرم نہیں آتی؟"

مہر جواب دینا چاہتی تھی۔

لیکن آج…اُفق جلدی میں نہیں تھی۔

وہ بس دیکھا کر رہی تھی۔

آنکھوں سے…پورا منظر ناپ رہی تھی۔

جب ایک لڑکی نے مہر کا ہاتھ جھٹکا…

تب اُفق آگے بڑھی۔

صرف ایک قدم۔

ایک۔

اور اس کا بازو تھام لیا۔

نہ زور سے۔

نہ ہلچل سے۔

بس اتنا کہ وہ ٹھٹھک گئی۔

اُفق نے سکون سے کہا:

"ہاتھ دوبارہ لگا کر دکھانا…پھر فیصلہ کریں گے کہ تمہارا بازو مضبوط ہے یا نہیں۔"

وہ لڑکی جھٹکنے لگی۔

اور…

اُفق نے ہاتھ چھوڑا نہیں۔

اگلے ہی لمحےاُس لڑکی کوزمیں کی سختی سمجھ آ گئی۔

کوئی تماشا نہیںکوئی چیخ نہیںبس…خاموشی میں ایک سبق۔

اُفق نے پیچھے مڑ کر مہر سے کہا:

"چلو۔ دیر ہو رہی ہے۔"

جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔

مہر کی آنکھیں نم تھیں۔

پر وہ نہیں بولی۔

بس چپ چاپ اُفق کے ساتھ چل دی۔

تیسرا منظر — 

اس دن بارش ہو رہی تھی۔سڑک گیلی تھی۔فضا بھاری۔

اسٹاپ پر چند لڑکیاںمہر کے بارے میں کھلم کھلا بولنے لگیں۔

بھری بس کے سامنے۔

جان بوجھ کر بلند آواز میں۔

لوگ خاموش تماشہ دیکھتے رہے۔

اُفق بس کو دیکھ رہی تھی۔

پھر آہستہ سے مہر کی طرف جھکتی ہے:

"تمہیں پتا ہے لوگ شور کیوں مچاتے ہیں؟"

مہر نے سر ہلایا۔

"کیونکہ اُن کے اندر خاموشی میں کچھ نہیں بچا ہوتا۔"

پھر وہ اُن لڑکیوں کی طرف مڑی۔

اور ایک لمحے میںپورا ماحول جیسے منجمد ہو گیا۔

"آخری وارننگ ہے…""میری بات یاد رکھنا…""آواز بہت طاقتور چیز ہوتی ہے…مگر اگر غلط جگہ نکلےتو واپس نگلنی بھی مشکل ہو جاتی ہے۔"

اُن میں سے ایک نے منہ بنایا۔

اور اگلے لمحے…

وہ لڑکی لفظ مکمل نہیں کر پائی۔

وہ بھیڑ میں نہیں گری۔

وہ خاموشی میں دب گئی۔

اور مہر…

اب مہر کو پتہ چل چکا تھا…

اُفق صرف اس کی دوست نہیںوہ اس کا سایہ بن چکی ہے۔

ایک ایسا سایہجو سورج سے نہیںبلکہ خطرے سے بنتا ہے۔

اور اُفق؟

وہ اب بھی وہی تھی…

نہ دوست کہتینہ دشمن بناتی

بس جس کے حق میں کھڑی ہوتیاُس کی جنگ خود بن جاتی۔

.....

اس دن رات کو…

چھت پر خاموشی بچھ گئی تھی۔

آسمان گہرا تھاجیسے سوچوں کی تہوں میں کوئی راز چھپا ہو۔

مہر چپ تھی۔

پھر اچانک بولی:

"اُفق…تم اتنی خاموش ہو کر بھیاتنی شدید کیسے ہو؟"

اُفق نے آسمان کو دیکھا۔

"کیونکہ شور… کمزور لوگ کرتے ہیں۔اور میں نے خود کو کمزور رہنے کی اجازت کبھی نہیں دی۔"

مہر نے آہستہ سے پوچھا:

"پھر بھی…تم اتنا سب کیوں کرتی ہو میرے لیے؟"

اُفق نے پہلو بدلا۔

نظر نہیں ملائی۔

صرف اتنا کہا:

"کیونکہ کچھ لوگان جانے میں بھی قیمتی بن جاتے ہیں…اور میں فضول چیزیں نہیں ہونے دیتی۔"

اور اسی لمحےمہر کو احساس ہوا…

وہ لڑکی جسے وہ محض ہم جماعت سمجھتی تھی…وہ اب اس کی پوری جنگ کا حصہ بن چکی ہے۔

اور اُفق؟

وہ شاید خود نہیں جانتی تھی…کہ وہ کسی کا محافظ نہیں بن رہی تھی۔

وہ دراصلاپنی تقدیر کوخود چن رہی تھی۔

اچانک مہر کے ذہن میں کچھ کلک ہوا تھا لیکن وہ خاموش رہی ابھی بارہ بجنے میں کافی وقت تھا وہ آنے والے وقت کے لیے کافی خوش تھی لیکن یہ رات اپنے ساتھ بہت کچھ نیا لانے والی تھی

...........

رات آہستہ آہستہ اپنے اختتام کی طرف بڑھ رہی تھی۔گھنٹے کی سوئیاں جیسے سانس روکے انتظار میں تھیں۔

کمرے میں صرف لیپ ٹاپ کی مدھم روشنی تھی۔اُفق حسبِ عادت خاموش،کرسی پر آدھی ٹیک لگا کر بیٹھی تھی۔

باہر سناٹا تھا…لیکن اس کے اندر وہی پرانا شور۔

بارہ بجنے میں بس چند سیکنڈ باقی تھے۔

تبھی…

ہلکی سی دستک۔

نہ زور سے۔نہ بے صبری سے۔

بس ایسے جیسے کوئی دل کا خیال دروازے کے باہر کھڑا ہو۔

اُفق نے دروازہ کھولا تو سامنے مہر کھڑی تھی۔

ہاتھ میں کوئی بڑا تحفہ نہیں…نہ غبارے…نہ شور۔

بس ایک چھوٹا سا کیک۔اور دو موم بتیاں۔

اور اس کی وہی سنجیدہ مگر نرم آنکھیں۔

"سالگرہ مبارک، اُفق۔"

اُفق ایک لمحہ ساکت رہی۔

جیسے کسی نے اس کی سالوں کی خاموشی کو چھو لیا ہو۔

"مجھے تمہیں یاد دلا نا تھا…کہ تم آج پیدا ہوئیں تھیں…صرف درد سہنے کے لیے نہیں،بلکہ کچھ بدلنے کے لیے۔"

وہ جملہاُفق کے اندر کہیں جا کر ٹک گیا۔

وہ ہنسی نہیں…لیکن اس کی خاموشی میں ایک خفیف سی نرمی آ گئی۔

وہ دونوں فرش پر بیٹھی تھیں۔

چھوٹا سا کیک۔دو چمچ۔کوئی موسیقی نہیں۔

بس باتیں۔

وقت جیسے آہستہ ہو گیا۔

مہر:"تمہیں پتا ہے؟ تم ایسے لگتی ہو جیسے تمہارے اندر کوئی سمندر ہو… لیکن تم نے اس پر تالہ لٹکایا ہوا ہے۔"

اُفق:"سمندر لوگ غرق کر دیتا ہے۔ میں کسی کو نہیں ڈبوتی۔"

مہر (ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ):"نہیں…اصل سمندر وہ ہوتا ہے جو کنارے پر بیٹھ کر بھی دنیا کو سکون دیتا ہے۔"

اُفق خاموش ہو گئی۔

شاید پہلی باراسے اچھا لگاکہ کوئی اس کی خاموشی کو سمجھے،نہ کہ اسے بدلے۔

دو گھنٹے…

بس باتوں میں گزر گئے۔

نہ ہنسی کا شور،نہ دکھ کا رونا۔

صرف سمجھنے کا عمل۔

رات گہری ہوئی۔ہوا ٹھنڈی ہوگئی۔

مہر نے آہستہ سے کہا:

"اگر تمہیں مسئلہ نہ ہو…تو میں یہی سو جاؤں؟مجھے آج… یہاں اچھا لگ رہا ہے۔"

اُفق نے کچھ نہیں کہا۔

بس ایک اضافی چادر آگے بڑھا دی۔

یہ اُس کی طرف سے قبولیت تھی۔بلا لفظ۔

مہر لیٹ گئی۔آہستہ آہستہ سانس برابر ہوتی گئی۔

گہرے سکون میں۔

لیکن…

اُفق کی راتاب شروع ہو رہی تھی۔

اُفق نے آنکھ بند کی۔

لیکن نیند نے اسے گود میں نہیں لیا،بلکہ کسی سرد راہداری میں دھکیل دیا۔

وہ کھڑی تھی۔

ایک لمبے، خاموش، سنسان ہال میں۔

دیواریں سیاہ تھیں۔چھت اتنی اونچی کہ نظر ہی نہ آئے۔

ہر طرف گھڑیوں کی ٹک ٹک۔

لیکن…

کوئی سوئی نہیں چل رہی تھی۔

وقت رُکا ہوا تھا۔

اور وہ… اکیلی۔

اچانکسامنے ایک آئینہ ابھرا۔

بہت بڑا۔بے حد صاف۔

اُس نے خود کو دیکھا۔

لیکن وہ خود نہیں تھی۔

اس کے چہرے پر تھکن تھی۔آنکھوں میں ایک عجیب سا خالی پن۔

اور اس کے پیچھے…اندھیرا۔

وہ اندھیرا زندہ تھا۔

رفتہ رفتہ اس سے ایک آواز نکلی:

"اگر تم نہ بدلو تو…تم بھی بس ایک سایہ بن جاؤ گی…"

اُفق کے قدم جڑ گئے۔

وہ ہل نہ سکی۔

بس اس اندھیرے نے مزید کہا:

"تمہارے پاس وقت ہے…لیکن زیادہ نہیں…"

اچانک…

اُفق کی سانس تیز ہو گئی۔

پسینہ ماتھے پر ابھر آیا۔

وہ ایک جھٹکے سے جاگ گئی۔

کمرہ خاموش تھا۔چاندنی مدھم۔

اور ایک طرف مہر سو رہی تھی۔سکون سے۔

جیسے کچھ بھی نہ ہوا ہو۔

مگر اُفق کے اندر…جنگ شروع ہو چکی تھی۔

وہ آہستہ سے بیٹھی۔

سانس کو قابو کرنے کی کوشش کی۔ 

اٹھ کر پانی پیا اور دوبارہ آرام سے لیٹھ گئی پر نیند انکھوں سے کوسوں دور تھی وہ کچھ سمجھ نہیں پا رہی تھی

..........................

۔"

دن اُس روز خاموش نہیں تھا…ہوا میں نمی تھی، سورج آدھا دھندلا سا، جیسے خود بھی کسی بات میں الجھا ہوا ہو۔

اُفق آج حسبِ معمول کلاس روم میں بیٹھی تھی، مگر اس کے اندر کچھ ٹوٹ کر خاموش ہوا جا رہا تھا۔ بورڈ پر لکھا لیکچر، استاد کی آواز، پنکھے کی گھوں… سب کچھ موجود تھا، مگر اس کا دھیان نہیں۔

اس کا دھیان… خود اس سے بھاگ رہا تھا۔

مہر حسبِ عادت اُس کے ساتھ ہی بیٹھی تھی۔خاموش، مگر موجود۔زوردار، مگر نرم۔

اچانک کلاس میں پیچھے شور ہوا۔دو لڑکیاں آپس میں الجھنے لگیں… بات چند لفظوں سے شروع ہوئی، پھر لہجوں پر آئی، پھر آوازوں پر۔

سب کچھ معمول کا تھا…مگر پھر ایک جملہ…

"کچھ لوگ تو ہوتے ہی بے رنگ ہیں… بس سایہ، انسان نہیں…"

یہ جملہ…براہ راست اُفق کی طرف تھا۔

کمرہ جیسے منجمد ہو گیا۔

لوگوں کی نظریں اس پر جم گئیں۔کچھ ترس…کچھ تمسخر…کچھ خاموشی۔

اُفق نے پلٹ کر دیکھا —نہ غصہ، نہ آنسوبس خالی پن۔

مگر مہر…اُس دن مہر صرف ایک دوست نہ تھی۔

وہ کرسی سے اٹھی نہیں…وہ کھڑی ہوئی جیسے کوئی دیوار اٹھتی ہے۔

"سایہ وہ ہوتا ہے جو دھوپ سے پیدا ہو،"اس نے نہ بلند آواز میں کہا، نہ آہستہ۔بس سیدھا۔

"اور تمہارے جیسے لوگ دھوپ تک بھی نہیں پہنچے۔"

پورا کمرہ ساکت۔

مگر اصل بات وہ نہ تھی…اصل بات وہ تھی جو اُفق نے محسوس کی۔

اسے پہلی بار لگا…کسی نے اس کی خاموشی کو کمزوری نہیں سمجھا۔

کچھ دیر بعد، جب سب کلاس ختم کر کے نکل گئے،راستے میں اسکول کے کوریڈور کی کھڑکی سے اندر سورج کی روشنی اندر آ رہی تھی۔

مہر نے بغیر دیکھے کہا:"تم ان باتوں کو اندر مت بٹھایا کرو… تمہارے اندر پہلے ہی کافی اندھیرا ہے…"

اُفق چونکی۔اس کی طرف دیکھا۔

"تمہیں کیسے پتہ میرے اندر اندھیرا ہے؟"

مہر آہستہ مسکرائی۔

"کیونکہ جو لوگ روشنی سے لڑتے ہیں… وہ اندھیرے کو پہچان لیتے ہیں…"

وہ جملہ… سیدھا اُفق کے اندر اترا۔

پھر وہ کینٹین کی طرف گئیں۔ہلکا شور، چائے کی بھاپ، لوگوں کی ہنسی۔مگر اُفق نے نوٹ کیا… آج وہ خود کم خالی تھی۔

تبھی ایک اور واقعہ ہوا۔

کینٹین کے کونے میں ایک لڑکا کسی کمزور سے بچے کو بار بار تنگ کر رہا تھا۔کوئی نہیں بولا۔سب نظر چرا رہے تھے۔

اُفق نے پہلی بار محسوس کیا…"خاموشی بھی جرم ہوتی ہے…"

وہ خود اُٹھنے ہی والی تھی کہ مہر اسے پہلے ہی پیچھے چھوڑ چکی تھی۔

دو جملے۔ایک قدم آگے۔اور وہ لڑکا پیچھے ہٹ گیا۔

کوئی مار دھاڑ نہیں۔بس… اثر۔

تب اُفق کو احساس ہوا:طاقت صرف ہاتھوں میں نہیں ہوتی،کبھی کبھی لفظوں میں ہوتی ہے۔اور کبھی… خاموش موجودگی میں۔

واپس کلاس کی طرف جاتے ہوئے اُس نے کہا:"تم ہر بار ایسا ہی کرتی ہو… بغیر بتائے، بغیر جتائے…"

مہر نے کندھے اچکا دیے۔

"میں نہیں چاہتی تم اکیلی بنو اُس اندھیرے میں…"

اور اُفق…بس یہی جملہ سوچتی رہی سارا دن۔

گھر اُس رات معمول سے زیادہ خاموش تھا…لیکن وہ خاموشی سکون کی نہیں، دباؤ کی تھی۔

کچن سے برتنوں کی آوازیں آ رہی تھیں،ٹی وی آن تھا مگر کوئی دیکھ نہیں رہا تھا۔اور ڈرائنگ روم کی ہوا میں ایک عجیب سا بوجھ معلق تھا۔

اُفق بیگ ایک طرف رکھ کر صوفے پر بیٹھی۔ابھی یونیفارم کی شکنیں بھی سیدھی نہیں ہوئی تھیں کہ اُس نے سنا:

"مہینے کا آدھا خرچ بھی نہیں نکلا ابھی تک…"

ماں کی آواز تھکی ہوئی تھی۔بہن کا لہجہ تیز۔

"یہ سب اسی لیے ہو رہا ہے کیونکہ کسی کو محنت کی عادت ہی نہیں…"

جملہ کہا تو کسی اور کے لیے گیا تھا…مگر نشانہ اُفق ہی بنی۔

وہ خاموش رہی۔

پھر ماں بولی:"اُفق… تُو نے آج تک کمایا کیا ہے؟خواب؟ خاموشی؟ان سے بجلی کا بل بھرتے ہیں؟"

اُفق نے سر اٹھایا۔پہلی بار اس کی آنکھوں میں جواب تھا… مگر زبان میں نہیں۔

بہن طنزیہ ہنسی:"ایسے چپ بیٹھنے سے کبھی کچھ نہیں بنتا…ہماری طرح عام ہی رہو… زیادہ اُڑنے کی ضرورت نہیں…"

وہ جملہ…عام ہی رہو…اس کے دل پر ایسے لگا جیسے کسی نے اس کے پر کاٹنے کی کوشش کی ہو۔

ماں نے بات بڑھائی:"نہ شکل میں، نہ بات میں، نہ قسمت میں…تم سے کیا بنے گا بھلا؟"

کمرے میں سناٹا چھا گیا۔

اور اُفق…خاموش رہی۔

نہ روئی۔نہ چیخی۔نہ کوئی دلیل دی۔

وہ بس اٹھی۔اپنے کمرے کی طرف چلی گئی۔دروازہ بند کیا۔تالا نہیں لگایا…کیونکہ کچھ لڑائیاں تالے سے نہیں، حوصلے سے جیتی جاتی ہیں۔

کمرے میں آ کر وہ دیر تک بستر پر بیٹھی رہی۔دیوار کو دیکھتی رہی۔جہاں ایک پرانا کاغذ ٹِکا ہوا تھا:

"ایک دن خود کو پہچانو گی…"

وہ کاغذ اس نے آج ہی کلاس سے آ کر لگایا تھا۔

اس نے موبائل اٹھایا۔نوٹس کھولے۔اپنی خاموش فائلیں۔اپنی ادھوری سوچیں۔اپنی چھپی ہوئی صلاحیتیں۔

اور وہ لمحہ…جس میں کچھ لوگ ٹوٹ جاتے ہیں…

اُفق نے خود کو یوں کہا:

"اگر تمہیں لگتا ہے میں کچھ نہیں بن سکتی…تو میں کچھ بن کر نہیں…بلکہ بہت کچھ بن کر دکھاؤں گی…"

اسی رات اس نے فیصلہ کیا:وہ پیسے کے لیے نہیں…بلکہ اپنی پہچان کے لیے کمانا چاہے گی۔

آن لائن کورسز۔اسکیچنگ۔ڈیزائن۔فری لانسنگ۔الفاظ میں خود کو ڈھالنا۔

وہ سب جو اس کے اندر پہلے ہی زندہ تھا…اب وہ اسے دنیا کے سامنے لانے والی تھی۔

کھڑکی سے باہر آسمان دیکھا۔سیاہ تھا…مگر ستارے بھی تھے۔

اور وہ آہستہ بولی:

"مجھے آسمان کی ضرورت نہیں…میں خود ہی اُڑنا سیکھ لوں گی…"

اس رات اس نے نیند سے پہلےکوئی دعا نہیں مانگی…

بس خود سے ایک وعدہ کیا۔

خود کی پہچان بنانے کا وعدہ

..................

کمرے میں ہلکی سی خاموشی تیر رہی تھی…جیسے کسی نے آوازوں کو سانس روکنے کا حکم دیا ہو۔

اُفق بستر پر لیٹی تھی،آنکھیں چھت کی طرف جمائے ہوئے۔

نیند آج بھی اس سے دور تھی۔

اسے نیند کا انتظار نہیں تھا…وہ تو صرف سوچ سے بچنا چاہتی تھی۔

مگر سوچیں کہاں مانتی ہیں؟

اس نے کروٹ بدلی۔

کھڑکی سے ٹھنڈی ہوا اندر آئیجیسے کسی نے آہستہ سے اس کا نام لیا ہو۔

اُفق چونک گئی۔

اُٹھی۔کھڑکی کی طرف بڑھی۔

پردہ تھوڑا سا ہٹایا۔

گلی سنسان تھی…لیکن…مکمل خالی نہیں۔

دور اندھیرے میں کسی کا سایہ سا حرکت کر رہا تھا۔

وہ رک گئی۔

دھڑکن تیز ہو گئی۔

اس نے آنکھیں سکوڑی…

سایہ…اسے دیکھ رہا تھایا یوں لگ رہا تھا کہ دیکھ رہا ہے؟

اُفق کا گلا خشک ہو گیا۔

وہ آہستہ سے بولی:

"…کون ہے وہاں؟"

جواب نہیں آیا۔

صرف ہوا کا ہلکا شور۔

لیکن پھر…

اندھیرے میں کسی کے قدموں کی آواز آئی۔

قریب آتی ہوئی۔

رفتہ… رفتہ…

اُفق نے کھڑکی بند کرنی چاہی…

اسی لمحے…

اور پھر اُس نے وہ چیز دیکھ لی…جس کے بارے میں اسے کبھی معلوم بھی نہیں ہونا تھا کہ وہ…

More Chapters